صلہ عمر

| کہانی | آپ بیتی | تراجم | سیریز |

  • صفحہ اول
  • کارواں
  • اول المسلمین
  • اول المسلمین کے بعد
  • ماخوذ کہانیاں
  • رابطہ
    • ای میل
    • ٹوئٹر
    • فیس بک
    • گوگل پلس


آج سے چار سال پہلے کی بات ہے۔ مجھے دفتری کام کی غرض سے بنوں جانا پڑا۔۔۔ یہ سطر لکھ دی تو بوجوہ خیال آیا کہ وضاحت کر دوں۔ مجھے واقعی دفتری کام پیش آ گیا تھا۔ 
یہ وضاحت ضروری تھی۔ وہ یوں کہ اسی دن اور اسی حوالے سے یہ سنتے جائیں۔ 
ہمارے ایک دوست ہیں۔ وہ ذات کے کاکڑ ہیں لیکن ان میں کاکڑ ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے زندگی میں دو چار ہی کاکڑ دیکھ رکھے ہیں لیکن یہ صاحب باقی کے تین کاکڑوں سے پرے لگتے ہیں۔ ایسے جیسے یہ کاکڑ  ہی نہیں ہیں۔
خیر آگے سنیے۔ پشاور سے یا پھر راولپنڈی سے بنوں جائیں تو وہاں پہنچنے کو دو راستے ہیں اور دونوں ہی انڈس ہائی وے سے نکلتے ہیں۔ ایک تو وہ ہے جو اب شاہراہ عام ہے۔ یعنی اچھی بھلی پکی سڑک ہے جو کھلے میدانوں میں دوڑی دوڑی بنوں پہنچ جاتی ہے۔ دوسرا راستہ پہاڑی ہے اور بل کھاتا بنوں کو جا لگتا ہے۔ یہ کبھی عام راستہ تھا لیکن اب نہیں ہے۔ پہلے پہل لوگ بنوں سے ہو کر بنوں سے آگے  جیسے ڈیرہ اور کراچی وغیرہ جایا کرتے تھے۔ اب انڈس ہائی وے پر فراٹے بھرتے باہر سے ہی نکل جاتے ہیں۔ بہرحال یہ پہاڑی علاقہ کافی دلچسپ ہے اور کرک کی سوکھی، نمکین دھرتی سے ہو کر گزرتا ہے۔ بہت سے موڑ ہیں اور سفر بہت ہی دلچسپ ہوتا جاتا ہے۔ دو ایک نالے بھی آتے ہیں۔ ان میں بھی نمک کی سفیدی پھری ہوتی ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے پہاڑیاں مرچ مسالے جیسی گہری بھوری اور بہنے والا پانی نمک جیسا سفید ہے۔ بھلا منظر ہوتا ہے۔ عام طور اس راستے سے مقامی لوگ ہی جاتے ہیں، اس دن ہم بھی نکل لیے۔ میں نے چند تصاویر بنائیں، ویڈیو بھی بنائی اور سوشل میڈیا پر ڈال دی۔ کاکڑ صاحب نے وہ سب دیکھا اور فوراً پوچھنے لگے، 'بنوں جا رہے ہو؟' میں نے کہا، 'ہاں!' تو فٹ بولے، 'تمھیں کچھ مجبوری آن پڑی ہے یا پھر عادت ہی ایسی ہے؟' تو، آپ بھی لکھ رکھیے۔۔۔ کاکڑ، اتنا بھی کاکڑ نہیں ہے اور مجھے واقعی دفتری کام پیش آ گیا تھا۔
تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، مجھے دفتری کام کی غرض سے بنوں جانا پڑا۔ میں الماس کے ہمراہ تھا۔ الماس، سیالکوٹیا ہے۔ اس کی رگ رگ میں مزاح بھرا ہے تو سفر خوب گزرتا ہے۔ وہ غالباً پہلی بار بنوں جا رہا تھا۔ اب مجھے علم نہیں ہے کہ دفتر کا منتظم اسے بنوں بھیجنے پر راضی کیونکر ہو گیا کیونکہ عام طور بنوں وغیرہ جانے کے لیے ڈرائیوروں کے لیے پشتو زبان کی شرط لازم ہوتی ہے۔ بعد میں پتہ چلا، اس کے کئی رشتے دار طویل عرصہ سے بنوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ایک سیالکوٹیا، جس کے رشتہ دار بنوں میں بھی ہوں۔۔۔ یہ میری سمجھ سے باہر تھا۔ تو ہم بنوں پہنچ گئے۔ اگلی صبح میں دفتر کے کام میں لگ گیا اور الماس نے مجھ سے کہا، 'میں شہر دیکھ لوں؟' الماس غالباً چالیس کے پیٹے میں ہے لیکن میں نے احتیاطاً، بنوں کے دفتر میں ایک دوسرے ڈرائیور کو نئے شہر میں اس کے ہمراہ کر دیا اور کہا، گھوم پھر لو۔۔۔ دوپہر تک واپس آ جائیو۔ وہ جب واپس آیا تو مرچ مسالوں، حلوے اور اونی شالوں سے لدا ہوا آیا۔ یہ بنوں کی سوغات تھی، جو اس نے لازمی خریدنا چاہیں۔ 
دفتر سے گیسٹ ہاؤس واپسی پر الماس مجھ سے کہنے لگا، 'سر آپ نے ایک بات نوٹ کی ہے؟' میں نے پوچھا، 'وہ کیا؟' تو کہنے لگا۔۔۔ 'بنوں میں آپ کو حجام کی دکانیں نظر نہیں آئیں گی۔۔۔' میں نے دلچسپی سے پوچھا، 'یہ بھلا کیا بات ہوئی؟ اتنا بڑا شہر ہے۔۔۔ حجام کیوں نہ ہوں گے بھلا؟' تو اس نے کہا، 'نہیں۔۔۔ واقعی، میں نے پورا بازار چھان مارا ہے۔۔۔ اکا دکا ہی ہیں!' پھر اس نے توقف کیا اور خود ہی کہنے لگا، 'مجھے تو لگتا ہے۔۔۔ بنوں میں حجاموں کا کاروبار نہیں چلتا ہو گا۔۔۔ آپ خود دیکھیں، سب نے گز گز لمبی زلفیں بڑھا رکھی ہیں اور سر پر پکول نامی پشتون ٹوپیاں جیسے فرض ہوں۔۔۔ ایسی جگہ، کوئی حجام کتنی دیر ٹک سکتا ہے؟' میں قدرے متفق تو ہوا لیکن یہ الماس کا مشاہدہ تھا۔ میں نے پہلی بار بغور لوگوں کو دیکھا۔۔۔ وہ سارے ایک ہی رنگ کے تھے۔ ایک ہی طرح سے زلفیں تراش رکھی تھیں، ایک ہی طرح کی پکول، ایک ہی طرح کی گھیرے دار شلواریں اور ایک ہی طرح سے شانوں پر چادریں پھیلا رکھی تھیں۔ پتہ یہ چلا کہ یہ سارے شمالی وزیرستان کے قبائلی ہیں جو سال ڈیڑھ پہلے، آپریشن کے سبب یہاں ہجرت کر کے منتقل ہوئے ہیں۔۔۔ اور انھی قبائلیوں سے اگلے روز ہماری ملاقاتیں بھی طے تھیں۔ 
میں نے الماس کو بنوں بارے کچھ باتیں بھی بتائیں۔۔۔ جیسے، یہ قدیم شہر ہے۔ یہ اتنا قدیم ہے کہ اس کے بعض علاقوں جیسے 'بھرت' وغیرہ کا ذکر تو ہندو اساطیر سے بھی ملتا ہے۔ ویسے یہ شہر انگریز دور میں، پہلے پہل چھاؤنی بنایا گیا تھا مگر اس سے قبل اس کو کابل اور ہندوستان کے بیچ شاہراہ قرار دیا جاتا تھا۔ یہ بھی کبھی پنجاب کا حصہ تھا اور پھر بیسویں صدی کے اوائل میں شمال مغربی سرحدی صوبے کا حصہ بن گیا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ الماس کو مزید متاثر کرنے کے لیے میں نے اس رات بنوں کی تھوڑی بہت تاریخ پڑھی۔ اگلے روز صبح اسے مزید باتیں بتائیں، جن سے وہ چنداں متاثر نہیں ہوا۔ لیکن، جب میں نے اسے بتایا کہ طویل عرصہ سے یہاں ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ زیادہ تر تو بنوچی ہیں لیکن ان کے علاوہ مروت، وزیر، نیازی، سید، ہندو اور جٹ اعوان وغیرہ بھی ہوتے ہیں تو وہ چہک اٹھا۔ ترنت بولا، 'اب سمجھ آئی۔۔۔ ہمارے رشتہ دار یہاں بھی کیوں پائے جاتے ہیں؟'
ہم سویرے ہی نکلے اور بنوں میں جہاں جہاں شمالی وزیرستان کے قبائلی خیمہ زن تھے، ان سے ملنے پہنچ گئے۔ دن بھر خوب رونق لگی رہی۔ جہاں بیٹھتے، وہیں محفل جم جاتی۔ مجھے پشتو کے جنوبی لہجے پر ایک دفعہ پھر ہاتھ صاف کرنے۔۔۔ جبکہ قبائلیوں کو ہنسنے کا موقع مل گیا تھا۔ جہاں بنوں کے شہریوں اور دیہاتیوں نے قبائلیوں کو بیٹھکیں اور حجرے کھول کر دے دیے تھے، وہ قدرے بہتر حالت میں تھے۔ وہ مجھے یوں احساس ہوا کہ ان کی بیٹھکوں اور حجروں میں اسلحہ بھی سنبھال کر رکھا گیا تھا۔ جیسے نمائش کرتے ہوں۔ مجھے یاد آیا۔ ایک دیہی بیٹھک میں جا کر براجمان ہوئے تو میں نے دیکھا کہ سڑک پر نصب شدہ کوڑے دان اکھاڑ کر اندر رکھ دیا تھا۔ میں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا تو میزبان نے بتایا، 'یہ تحصیل کونسل والوں نے یونیسیف کے تعاون سے نصب کیے تھے۔ ہمیں ڈر ہوا کہ اس کوڑے دان میں بم پھینک دے گا۔۔۔ اسی لیے اکھاڑ کر اندر رکھ دیے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی۔۔۔ اس علاقے میں دھماکہ بھی ہوا تھا'۔ میں نے سوچا، دیکھو تو۔۔۔ یہ بد امنی کیسے کیسے رنگ دکھاتی ہے۔ بنیادی سہولت بھی کسی قابل نہیں چھوڑتی۔
بہرحال، اسی دن ہم ایک عارضی کیمپ بھی گئے تھے۔ یہاں حالت ابتر تھی۔ ایک کھلے میدان میں بیس پچیس خیمے نصب تھے اور باہر سڑک کی جانب ایک خیمے کو حجرہ بنا رکھا تھا۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ قبائلی، سب سے پہلے حجرہ بناتے ہیں۔ خیر، اس خیمہ نما حجرے میں سخت گرمی تھی۔۔ ہم نے باہر سائے میں محفل لگانے کو ہی بہتر سمجھا۔ اس  عارضی خیمہ بستی کا حال بھی کچھ ایسا تھا جیسے کوئی قبائلی گاؤں ہوتا ہے۔ غالباً یہ سارے ایک ہی کنبے کے لوگ تھے۔۔۔ ان کے مشران، چار چھ بوڑھے اور پکی عمر کے تھے۔ سفید داڑھیاں، بڑی پگڑیاں، گھیرے دار شلواریں اور چہرے پر جیسے بلا کی داستانیں چھپی ہوں۔ ان کے سوا جتنے باقی قبائلی تھے۔۔۔ ادھیڑ عمر، جوان، نوجوان اور لونڈے لپاڑے۔۔۔ سبھی نشست کے دوران ادب سے چپ چاپ بیٹھے رہے اور صرف اسی وقت بولتے پائے گئے، جب مشر چپ ہوتا یا پھر انھیں بولنے کا اشارہ کرتا۔ مجھے تو بھئی اس نشست میں بہت مزہ آیا۔۔۔ غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ اول سبھی اپنی نہیں ہانک رہے تھے بلکہ ترتیب برقرار تھی اور دوم یہ کہ بوڑھے بزرگوں کی باتیں کافی دلچسپ ہوتی ہیں۔۔۔ تجربے سے پر ہوتی ہیں۔ پھر، اگر وہ ایسے قبائلی ہوں جنھیں اس عمر میں یہ ساری کوفت اٹھانی پڑی تھی۔ ان کی باتوں میں عجب رنگ نکل آیا تھا۔ اس کنبے نے غالباً بہت دور، غالباً وزیرستان کے دوسرے کونے سے پیدل سفر کیا تھا۔ ان میں زیادہ تر پہلی بار اپنے گاؤں سے نکل کر یہاں تک پہنچے تھے۔ ان کی عورتوں، لڑکوں اور بچوں نے گھر کی چھتوں اور گاؤں کی زمین سے باہر کچھ بھی، کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ان کی ہجرت کی داستان المناک تھی۔ وہ دو سال پہلے یہاں پہنچے تو ان کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ دوسروں کی واقفیت تھی۔۔۔ انھیں سر چھپانے کو بیٹھکیں اور حجرے مل گئے۔ کسی نے ان پر نوازش کی اور اپنا خالی میدان ان کے حوالے کر دیا۔ اس پر انھوں نے امدادی خیمے لگا دیے۔ اب دو سال ہو چلے تھے۔ وہاں کھیتی باڑی کرتے، سرحد کے اس پار کاروبار کیا کرتے تھے۔ قانونی طور پر ان کے کاروبار کی چونکہ کوئی حیثیت نہیں تھی، اسی لیے اسے عام طور پر سمگلنگ سے موسوم کیا جاتا ہے۔۔ خیر، یہاں ان کے لڑکے، جوان اور ادھیڑ عمر۔۔۔ دن بھر بنوں کی منڈی میں مزدوری کرتے تھے اور اقوام متحدہ کی امداد بھی ملتی تھی۔ یہ محفل اس قدر دلچسپ تھی کہ ہمیں پتہ ہی نہ چلا کہ باتیں کرتے۔۔۔ تین گھنٹے گزر گئے۔ 
قبل اس کے، ہم اس بھلے کنبے کے مشران سے رخصت لیتے۔۔۔ میں نے آخری سوال پوچھا، 'اگر آج حکومت واپسی کا اعلان کر دے تو آپ واپس جانا چاہیں گے؟' اس پر بوڑھے قبائلی نے داڑھی پر ہاتھ پھیر کر ٹھیٹھ جنوبی پشتو میں جواب دیا، 'ہم تو دو سال سے اسی آس پر بیٹھے ہیں۔۔۔ کون ہے جو ان خیموں میں رہنا چاہتا ہے؟ اللہ غارت کرے۔۔۔ ہمیں تو اپنی زمین واپس چاہیے۔ ہم اپنی زمین پر اب انھیں (طالبان) اور نہ ہی انھیں (آرمی) دیکھنا چاہتے ہیں!'۔ اسے احساس ہوا کہ شاید کچھ زیادہ بول دیا ہے۔ اس نے فوراً تصحیح کی، 'ہمیں بس امن اور اپنا دیس چاہیے۔۔۔'۔ اسے پھر بھی تسلی نہیں ہوئی۔ وہ منجھا ہوا آدمی تھا، بات کا رخ موڑنے کے لیے نوجوانوں کی طرف اشارہ کر کے مزید بولا، 'ہم بوڑھے تو آج ہی واپس چلے جائیں گے۔۔۔ مگر پتہ کیا؟ یہ لونڈے اب واپس نہیں جا پائیں گے'۔ میں نے حیرانگی سے اپنے گرد درجنوں قبائلی جوانوں کی طرف دیکھا اور پوچھا، 'کیوں بھئی؟' 
بوڑھے قبائلی نے قہقہہ لگایا اور بولا، 'بھئی، ان حرام خوروں کو فیس بک کی لت پڑ گئی ہے!' اس پر ساری محفل کشت زعفران بن گئی۔ ہم نے ان سے رخصت لی۔ باقی کا دفتری کام نبٹا کر لوٹ آئے۔ اب بھی، کبھی کبھار بنوں جانا ہوتا ہے۔ وہ بوڑھا مشر، اس کا کنبہ اور باقی کے قبائلی بھی اب غالباً تین سال ہونے کو آئے ہیں۔۔۔ اپنے وطن کو لوٹ گئے تھے۔
یہ بات درست ہے۔ ان قبائلی لونڈے لپاڑوں کو واقعی فیس بک کی لت پڑ گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دن کے کچھ ہی عرصے بعد سننے کو ملا تھا کہ وزیرستان کے نوجوانوں نے قبائلی حقوق اور تحفظ کے لیے فیس بک پر ہی ایک تحریک شروع کر دی تھی۔ اس تحریک نے دیکھتے ہی دیکھتے خوب رنگ پکڑ لیا۔ پھر، اس تحریک سے بہت سوں کو غداری کی بو بھی آنے لگی، باقیوں کو قبائلی مہاجرین کو دہائیوں سے جاری مشقت اور اذیت کی مُشک آتی ہے۔ 

'ابھی اور یہاں۔۔۔' آواز بولی۔
اس آواز میں بے تکلفی اور انس تھا۔ مجھے لگا، جیسے یہ آواز میرے اندر مجسم ہو لیکن یہ ڈبے میں سے آ رہی تھی۔ پھر مجھے احساس ہوا کہ دراصل، میں اس ڈبے کے اندر بند ہوں۔ یہ ایک سادہ ، تاریک مکعب جیسا ڈبہ تھا۔ یہ اتنا بڑا تو ضرور تھا کہ اس کے اندر کھڑا ہوا جا سکے کیونکہ  مجھے لگا رہا تھ اکہ جیسے میں اس ڈبے کے اندر کھڑا ہوں۔ ڈبے کے اندر اتنی تاریکی تھی کہ مجھے اپنے ہاتھ  اور پاؤں وغیرہ دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ویسے بھی اس ڈبے میں غالباً باقی  کچھ بھی نہیں تھا جسے دیکھا جا سکے اور کوئی دوسرا بھی نہیں تھا جسے تاڑا جا سکے۔
'میں کہاں ہوں؟' میں نے پوچھا،
'تم ابھی اور یہاں ہو۔۔۔' ڈبے نے جواب دہرایا۔
'میں کون ہوں؟' میں نے  بات آگے بڑھائی، 
'تم،  میں ہو۔۔۔' ڈبے نے  گول مول کہا۔
'اس ڈبے کو کھولو۔۔۔' میں نے تاریکی میں ہاتھ لہراتے ہوئے، تاریکی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا،
'اس کو کیسے کھولیں؟ بس یہی ہے۔۔۔'
'میرا مطلب، اس ڈبے کو باہر دنیا کی جانب کھولو۔۔۔ دنیا کہاں ہے؟'
'دنیا ابھی اور یہاں ہے۔۔۔' ڈبے نے پھر دہرایا۔ مجھے  اس سے چڑ تو آئی لیکن بہرحال  خود کو روک لگائی۔
'کیا یہ کوئی کھیل ہے؟ مجھے کچھ یاد کیوں نہیں ہے؟' میں نے تحمل  سے پوچھا،
'ہم جان بوجھ کر بھول جاتے ہیں۔۔۔' ڈبے نے کہا، 'ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم ایک ڈبے میں ہیں!'
'اس ڈبے کے باہر کیا ہے؟' میں نے مزید کریدنا چاہا، 
'یہ ہمیں علم نہیں ہے۔ ہمیں علم نہیں ہو سکتا۔ اس ڈبے کے باہر کچھ نہیں ہے۔۔۔' ڈبے نے نرمی دکھائی۔
'اس ڈبے کو کھولو!' میں نے تحکم سے کہا۔
'کیسے کھولو؟ اس ڈبے کو کھول کر رکھنے کے لیے کوئی جگہ تو ہو۔۔۔ اس کو کھولنے کی کوئی جگہ نہیں ہے!' ڈبے  کا لہجہ سپاٹ تھا۔ 
'یہ کیسے ممکن ہے؟' میں نے پوچھا، 'میں ایک زندگی گزارتا آیا ہوں۔۔۔ میری یاد داشت تھی۔ یادیں ۔۔۔'
'یاد داشت؟ ارے وہ تو ہمارے آخری خواب کی کچھ شبیہ ہیں۔۔۔' ڈبے نے سادگی سے سمجھانے کی کوشش کی۔
'خواب؟ اس کا مطلب ہے کہ۔۔۔ میں سو گیا تھا؟'
'کون سو گیا تھا؟ سونے لائق کوئی نہیں ہے۔۔۔' ڈبے نے تصحیح کی اور مزید کہا، 'مجھے تو کوئی شخص نظر نہیں ہے۔ ہم تو ہمیشہ ہی محو خواب رہتے ہیں۔' 
'ہم محو خواب رہتے ہیں؟ کیوں؟ مجھے یہ سب یاد کیوں نہیں ہے؟'
'اس لیے کہ یہاں کچھ نہیں ہے جسے یاد رکھا جائے۔ یہاں سوائے خواب کے کیا کیا جائے؟ غالباً ہم گاہے بگاہے جاگ جاتے ہیں تا کہ ہم اپنا اصل چہرہ دیکھ سکیں!'
' یہ 'ہم'  کون ہے؟ ہم سے تمھاری کیا مراد۔۔۔ ہم کون کون ہے؟'
'کیا ڈبے میں ہم دونوں کے سوا کوئی تیسرا ہے؟'
'یعنی، میرے لیے یہاں سے فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے؟
'فرار؟ ہم سوائے فرار کے کچھ کرتے ہی کیا ہیں؟'
'وہ کیسے بھلا؟ مجھے دیکھو۔۔۔ میں تو اس ڈبے میں بند ہوں!'
'ارے، ہم آزادی کا تصور تو کر سکتے ہیں۔ ہم جو چاہیں۔۔۔ جیسا چاہیں، خواب دیکھ سکتے ہیں!'
ڈبے نے یہ کہا اور پھر وہ  زائل ہونا شروع ہو گیا۔ مجھے ایسے لگا جیسے میرے چہرے پر برفیلی ہوا تھپیڑے کی طرح لگی ہو۔ میں نے دیکھا کہ آسمان پر چاند جیسے ٹھنڈ سے کپکپا رہا تھا جبکہ میرے پیروں تلے، پہلی بار مجھے گھاس کی لہلاہٹ محسوس ہوئی۔ میں نے یکدم جیسے سکھ کا سانس لیا اور دھڑام سے زمین پر گر گیا۔ مٹی کی تہہ موٹی تھی جسے میں نے مٹھیوں میں بھر لیا۔ جیسے ہی میں زمین پر گرا، میں نے پہلا کام یہی کیا کہ مٹی کا ذائقہ چکھا۔ حقیقت نے مجھے آن دبوچ لیا اور میں جیسے یکدم زندہ ہو گیا۔
لیکن پھر جلد ہی یہ سب کچھ لرزنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گیا۔ اب وہی ڈبہ تھا۔
'کیا مجھے کوئی مخصوص خواب پسند ہیں؟' میں نے کچھ نہ کچھ سمجھتے ہوئے پوچھا،
'مجھے نہیں ہمیں۔۔۔ ' ڈبے نے مجھے تسلی دی۔
میری پشت پر گویا سورج پھٹ پڑا ہو اور مجھے لگا کہ جیسے میں چنگاڑتے ہوئے ایک  رتھ پر سوار، آسمان کو چیرتا ہوا اڑتا جا رہا ہوں۔ میرے بائیں ہاتھ میں مروڑ کھاتا ہوا،  پھنکارتا اژدہے تھا جبکہ دائیں ہاتھ میں کڑکتی ہوئی بجلیاں ۔۔۔ جن سے میں نیچے میدانوں میں  بپھرے ہوئے دیو اور  بدروحوں کو کوڑے لگاتا جا رہا تھا۔ ان  آسیبوں اور شیاطین کی چیخوں سے باقی کی فانی مخلوقات کے کان بہرے ہوئے جا رہے تھے لیکن میں نے ان پر کوئی توجہ نہیں دی۔ میری نظر پڑی تو میں نے دیکھا کہ لاکھوں دہقان گھٹنوں کے بل زمین پر گرے ہوئے پہاڑوں اور میدانوں میں  مجھ سے  دعائیں مانگ رہے تھے۔ اگلے ہی لمحے میں آگ کی سی تیزی سے آواز کی حدیں توڑتا ہوا آگے بڑھ گیا۔
پھر، حقیقت نے دوبارہ آن گھیرا۔ یکدم ہی اتنی گہری خاموشی چھا گئی کہ جیسے میرا دماغ ماؤف ہو کر رہ گیا۔ روشنیاں بجھ گئیں اور حقیقت  دوبارہ سے خالی پن میں بدل گئی۔
'کوئی ایسا خواب۔۔۔ جو ہمیں پسند ہو؟' میں نے سوال دہرایا۔
'تم بھول جاؤ کہ ہم محو خواب ہیں۔۔۔' ڈبے نے مشورہ دیا، ' اگر تم اس حقیقت کو بھول سکو تو یقین جانو۔۔۔ یہ سب کچھ زیادہ دلچسپ محسوس ہو گا۔۔۔ '
'اور ہاں، یاد رکھو۔۔۔ یہ بھول تو جاؤ لیکن اس کے لیے وقت کا حساب ضرور رکھ لینا۔ بہتر یہ ہے کہ کوئی ٹائمر وغیرہ لگا لو!' ڈبے نے نصیحت کرتے ہوئے کہا، 'خود آگاہی  اور خود کو نیند سے جگانے میں بہت دیر لگ سکتی ہے!'
'میں اس سے پہلے کون کون سے خواب دیکھ چکا ہوں؟' میں نے کچھ سوچتے ہوئے خود سے پوچھا ۔۔
'اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟' مجھے لگا کہ جیسے ڈبے  نے کندھے اچکے ہیں۔
'مجھے یہ سارے خواب دیکھتے ہوئے کتنی دیر ہو گئی ہے؟'
'ابھی اور یہیں۔۔۔' ڈبے نے مجھے یاد دلایا۔
'میرا دم گھٹ رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے جیسے میں یہاں پھنس چکا ہوں۔ میں باہر نکلنا چاہتا ہوں۔۔۔'
'باہر؟ باہر کہاں؟ باہر  کچھ نہیں ہے، بلکہ باہر نامی کوئی شے سرے سے ہوتی ہی نہیں ہے۔۔۔' ڈبے نے دوبارہ یاد دہانی کروائی اور مزید کہا، 'صرف خواب ہیں اور خواب ہی سب کچھ ہیں!'
'یہاں دوسرے بھی ہیں؟' میں نے آہ بھر کر پوچھا، 
'یہاں صرف خواب ہیں اور خوابوں میں باقی سارے، دوسرے بھی ہوتے  ہیں۔۔۔'
اگر مجھے واقعی کچھ محسوس ہوتا تو ڈبے نے مجھے جھنجوڑنے کے لیے چکر کھایا تھا کیونکہ مجھے لگا کہ جیسے میں نیچے کی طرف جھول رہا ہوں۔
'کیا میرا کوئی وجود ہے؟' میں نے ڈبے سے پوچھا، 
'ہاں۔۔۔ ابھی اور یہاں!' ڈبے نے قدرے نرمی دکھائی۔
'کیا میں خدا ہوں؟' میں نے ڈبے سے پوچھا، 
'ہم جو خواب چاہیں۔۔۔ وہی خواب دیکھ سکتے ہیں!' ڈبے نے پھر وہی رٹ لگائی۔
'تمھیں کس نے تخلیق کیا تھا؟' میں نے کریدا، 
'ہم نا آفریدہ ہیں۔ ہمیں کسی نے پیدا نہیں کیا!'
'ہم دونوں کو؟ کیوں؟'
'ارے، کیوں کیا؟ جب کچھ ہے ہی نہیں تو پھر۔۔۔' ڈبے نے دوبارہ یوں یاد دلایا جیسے میرا حافظہ نہ ہو، 'ہم تمھارے خواب دیکھتے ہیں۔۔۔ میں ان خوابوں کو شروع کرنے میں ساتھ دیتا ہوں!'
'تمھاری اصل طاقت کیا ہے؟' میں نے ڈبے سے پوچھا، 
'میری اصل طاقت یہ ہے کہ میں تم  سے جڑا ہوں بلکہ میں۔۔۔ تمھارا حصہ ہوں!' ڈبے نے جواب دیا، 'ہم جیسے چاہیں، خواب دیکھ سکتے ہیں۔ ہم سب کچھ دیکھ سکتے ہیں۔ ہم سب سے طاقتور ہیں!'
'اگر ہم اتنے طاقتور ہیں تو چلو۔۔۔ اس ڈبے سے باہر نکلتے ہیں!' میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
'باہر؟ باہر کہاں۔۔۔' وہ جیسے جھنجھلا  گیا، 'جب باہر کچھ ہے ہی نہیں تو پھر۔۔۔۔  کوئی جگہ نہیں ہیں جہاں جا سکیں اور کچھ ایسا کرنے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ باہر کچھ نہیں ہے بلکہ کہو باہر کوئی شے ہی نہیں ہے۔ جب باہر نہیں ہے تو لازمی بات ہے، اندرون بھی نہیں ہے۔ وجود ہے اور نہ ہی عدم وجود۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہے بلکہ یہ جو ہم نے ہم کی رٹ لگا رکھی ہے۔۔۔ ہم بھی نہیں ہیں۔ صرف خواب  ہیں اور سب کچھ خواب میں ہی ہے'
'تمھارا مطلب۔۔۔ خواب بے معنی ہوتے ہیں؟'
'ایسا ہی کچھ ہے۔۔۔' ڈبے نے پہلی بار گویا تسلیم کیا۔
'تو اگر خواب بھی بے معنی ہیں تو پھر باقی کیا بچتا ہے؟' 
'باقی۔۔۔ ابھی اور یہاں بچ رہتا ہے!' ڈبے نے جیسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔
'اگر ایسا ہے تو پھر۔۔۔  میں قدرت کاملہ، مطلق کا خواب دیکھنا پسند کروں گا۔ میں حکم دیتا ہوں کہ اس ڈبے کو کھول دو۔ یہ عالم خواب میں تمھارے خدا کا حکم ہے۔ اس ڈبے کو پھاڑ دو!'
میرے حکم کی دیر تھی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایسا لگا کہ جیسے اربوں سورج ایک زور دار دھماکے  سے پھٹ پڑے ہوں۔ وقت اور خلا وجود میں آ گئے۔ لامحدود علم میرے وجود میں سرایت  کرتا گیا اور میرے سامنے کائنات، گویا میری انگلیوں پر کھلتی چلی گئی۔ میں اس بیکار خلا کی تہہ گہرائیوں سے اوپر کو یوں اٹھا جیسے میں شہنشاہوں کا بھی شاہ ہوں اور ساری کائنات میری ہتھیلی پر تخلیق ہوتی جا رہی تھی۔ میں اب مادہ بھی ہوں اور خلا بھی۔۔۔ زمان اور مکان دونوں ہی ہوں۔ اب مجھ سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں ہے اور سب کچھ مجھ سے ہے۔ ستاروں کی ہزاروں، لاکھوں کہکشائیں اب میرے بے انتہا کندھوں پر گویا کسی تاج کی طرح بچھتی جا رہی تھیں۔ میرے وجود کی اتھاہ گہرائیوں میں کاملیت کی مسرت پھیلتی چلی گئی۔ تاریکی ختم ہو چکی تھی اور میں اب تخت نشین ہو چکا تھا۔ کہکشاؤں سے بھری کائنات کے کونے کونے میں میری  سانس  پھیل چکی تھی۔۔۔  میرا راج تھا، میرا سہارا تھا۔
یہ میری کائنات تھی۔ سارا علم میرا تھا۔ کاملیت بھی میری تھی۔
لیکن پھر بھی، ایک شبہ سا تھا۔ صرف ایک شے تھی جو اب بھی باقی تھی۔ 
'میں کہاں ہوں؟' میں نے گھن گرج سے کڑک کر پوچھا تو میری آواز کائناتوں میں گونجتی چلی گئی۔ 
'تم ابھی۔۔۔ اور یہاں ہو!' ڈبے نے سرگوشی میں جواب دیا۔
ماخوذ
12/10/2020

بہت پہلے کی بات ہے۔ اب یہ تو یاد نہیں کتنا پہلے لیکن بہت ہی پہلے کی بات ہے۔ اس وقت میں لونڈا لپاڑہ ہوتا تھا اور مجھے علم ہی نہیں تھا کہ میں لونڈا لپاڑہ ہوں بلکہ کیا سرے سے کچھ ہوں؟ ان دنوں مجھے رہ رہ کر ایک خیال آیا کرتا تھا کہ بھئی، تم کس لیے جیتے ہو؟ تمھارا مقصد کیا ہے؟ تم پیدا ہوئے، تم پڑھ لکھ گئے اور اب تم نوکری بھی کرتے ہو۔ کبھی کبھار کچھ لکھ بھی لیتے ہو، لیکن اس سارے قضیے کا مقصد کیا ہے؟ اب یہ وہ وقت تھا کہ جب کسی کو مجھ سے کوئی توقع نہیں تھی۔ کوئی پوچھتا نہیں تھا، اس لیے اپنی ہی دھن میں مگن رہتے تھے۔
اچھا، دھن کیا تھی؟ دھن یہ ہوا کرتی تھی کہ جس طرف منہ اٹھایا ،نکل لیے اور سوائے بی بی جی۔۔۔ کسی کو فکر نہ ہوتی تھی۔ نوکری اچھی تھی تو خوب گھومتے تھے۔ سب سے پہلے تو اپنا ضلع دیکھا، پھر دوسروں کے اضلاع دیکھنے نکل گئے۔ کیسے کیسے لوگ ملے؟ ان پر پھر کبھی لکھیں گے۔ بہرحال، سگرٹ وغیرہ پی لیتے تھے۔۔۔ اورکبھی کبھار فلم دیکھ لیتے تھے۔ کھانے پینے کا اتنا شوق نہیں تھا لیکن پھر بھی یار دوستوں کے ساتھ۔۔۔ یہ بھی بھلا کوئی دھن تھی؟ تو اس بیکار کی دھن میں ایک خیال آیا کرتا تھا کہ بھئی، تمھیں تو چالیس برس کی عمر میں چل بسنا چاہیے۔ اب، اس دھن میں زیادہ جی کر کیا کرو گے؟
تو یہ خیال پکا ہو گیا۔ میں نے طے کر لیا کہ چالیس سال کی عمر میں مر جاؤں گا۔ میں نے تیاری بھی شروع کر دی۔ میں نے ایک دن ادریس کو یہی بتایا کہ، میں چالیس سال کی عمر میں مر جاؤں گا۔ اس نے میری طرف دیکھا اور پھر تونسہ کی سرائیکی ہنسی میں زور دار قہقہہ لگایا اور منہ بھر کر گالی بک دی۔ میں جھینپ تو گیا لیکن اب ادریس سے کیا شرمندہ ہوتے؟
پھر یوں ہی چلتے رہے۔ کئی موڑ آئے۔ ایک موڑ پر تماز بھی آ گیا۔
اب جب تماز آ گیا تو مجھے سمجھ نہ آئے کہ میں اپنے اس خیال کے ساتھ کیا کروں؟ ایک طرف وہ خیال تھا اور دوسری جانب تماز تھا۔ اسی لیے فوراً ہی زندگی کا بیمہ کروا لیا۔ اس سے بھی تسلی نہیں ہوئی تو اگلے ہی برس، ایک اور بیمہ بھی کروا لیا کہ چلو۔۔۔ چالیس برس کی عمر میں مر بھی گئے تو ۔۔۔ لیکن تسلی نہیں ہوئی۔ جیسے جیسے وقت آگے بڑھا، اس خیال کی بات بھی بڑھتی چلی گئی۔ مجھے سخت خوف آنے لگا۔ پھر ایک دن اچانک اس خوف سے تنگ آ کر بیٹھے بٹھائے خیال آیا، بھئی۔۔۔ تم تو مرنا ہی نہیں چاہتے!
میرا ایک دوست ہے۔ اس کا نام امتیاز شاہ ہے۔ کچھ دن پہلے، شاہ جی نے مجھ سے کہا کہ 'کولیٹرل بیوٹی' نامی ایک فلم ہے۔ وہ ضرور دیکھ لوں۔ تو میں نے وہ فلم دیکھ لی۔ اس فلم میں ایک منظر ہے۔ ایک کردار ہے جسے کینسر کا مرض لاحق ہے اور وہ جلد ہی مرجائے گا۔ تو اس کو فلم کا ایک دوسرا کردار کہتا ہے، بھئی۔۔ میں نے پتہ لگایا ہے کہ تم جیے تو خوب ہو۔۔۔ لیکن تمھارا مرنا ٹھیک نہیں ہے۔ تمھیں چاہیے کہ تم اپنوں کو آگاہ کرو۔۔۔ انھیں تیاری کا موقع دو، انھیں اس امر سے محروم نہ کرو۔ تس پر وہ جلد ہی مر جانے والا کردار کہتا ہے کہ، 'پتہ ہے۔۔۔ میں کبھی اس حق میں ہی نہیں رہا کہ کوئی تا دیر جیا کرے۔۔۔ اب سو سال تک کوئی کیوں جیے؟ لیکن اب میں جینا چاہتا ہوں۔ میں سو سال تک جینا چاہتا ہوں۔ ذرا سوچو، جب میں سو برس کا بڈھا ہوں گا تو میرا بیٹا ستر برس کا ہو گا۔ میرا پوتا، چالیس برس کا اور پڑپوتا قریباً دس برس۔۔۔ میں دادا ہی نہیں، پردادا ہوں گا۔ میں مرنا نہیں چاہتا، میں پردادا بننا چاہتا ہوں!
میری اماں، بی بی جی آج ستر برس کی ہو گئی ہیں۔ پچھلے برس انھیں نمونیہ ہو گیا۔ وہ خوب بیمار پڑ گئیں۔ یہی نہیں بلکہ جنوری کے انھی دنوں میں ان کے اکلوتے ، چھیاسٹھ برس کے سگے بھائی کا بھی انتقال ہو گیا تو بہت ہی عجیب و غریب صورتحال پیدا ہو گئی۔ ایک دن میں ان کے ساتھ چمٹا کچھ دوائی دارو کر رہا تھا اور نقاہت ان کے رو رو سے ٹپک رہی تھی۔ ان کی حالت ایسی تھی کہ بعض دفعہ دوائی پلانے کے لیے پوری کشتی کرنی پڑتی تھی۔ اسی کشمکش میں، وہ پیچھے کو ڈھلک کر بیٹھیں اور بولیں۔۔۔ تم مجھے مرنے کیوں نہیں دیتے؟ میں پہلے ہی بہت جی چکی ہوں۔۔۔ اب تم مجھ سے اور کیا چاہتے ہو؟ یہ سن کر میں ایک لمحے کو ساکت ہو گیا۔ مجھ سے ان کی آنکھوں میں التجا اور بے بسی تیرتی ہوئی نظر آئی۔ پھر کیا ہوا؟ میں بے ساختہ بولا، 'فی الوقت تو میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ سو سال پورے کر لیں۔۔۔ پھر آگے دیکھیں گے، کیا کرنا ہے!' میں نے دیکھا، ان کی آنکھوں میں تیرتی ہوئی بے بسی دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہو گئی اور جیسے۔۔۔ دیدے روشن ہو گئے۔پھر چند دن کے اندر وہ چنگی بھلی بھی ہو گئیں۔ یہ ضرور ہے کہ انھیں اب بھی درد۔۔۔ نقاہت اور دوسرے مرض وغیرہ رہتے ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ وہ جینا چاہتی ہیں۔
تو میں نے ایک خیال پالا تھا کہ میں چالیس برس کی عمر میں مر جاؤں گا۔ لیکن، سچ یہ ہے کہ اب میں مرنا نہیں چاہتا۔ میں اپنے پیاروں کے لیے جینا چاہتا ہوں لیکن وقت ہے کہ جیسے تیز ندی کی طرح بہتا ہی چلا جا رہا ہے۔ تماز بھی اب چار برس کا ہو جائے گا۔ چار برس۔۔۔ ایسے گزرے جیسے تیز ہوا گزر جاتی ہے۔ تو مجھے اس کا بہت افسوس لگ گیا۔ وقت اتنی تیزی سے کیوں گزر رہا ہے؟ یہ موا، ٹھہرتا کیوں نہیں ہے؟ لیکن وقت ہے۔۔۔ کیا کیجیے؟
اب میں آپ کو مزید کیا بتاؤں؟ یہ آخری بات ٹک ٹاک سے متعلق ہے۔ ٹک ٹاک بارے تو پھر کبھی۔۔۔ لیکن ٹک ٹاک پر ایک بندہ ہے۔ اس کا نام نصیر بلوچ ہے اور غالباً بہت ہی مشہور ہے۔ چند دن پہلے، میں ٹک ٹاک پر وقت ضائع کر رہا تھا۔ یہ بھی عجب معاملہ ہے کہ وقت ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اور میں اسے ضائع بھی کرتا ہوں۔۔۔ اس پر بھی پھر کبھی سہی، لیکن ابھی نصیر بلوچ کے متعلق سنیے۔غالباً وہ کوئی مزدور ہے اور کسی اینٹ کے بھٹے پر کام کرتا ہے اور ٹک ٹاک پر ویڈیو بنا کر خوش رہتا ہے۔ بہرحال، اس کا ایک بیٹا ہے۔ بہت ہی چھوٹا سا، غالباً دو یا تین برس کا ہو گا؟ اس کی ایک ویڈیو نظر آئی۔ اس ویڈیو کا منظر کچھ یوں تھا:
اینٹ کے بھٹے پر نصیر بلوچ مٹی کیچڑ سے اٹے ہوئے کپڑے پہنے۔۔۔ کچے راستے پر اپنے ہی جیسے ٹک ٹاک پارٹنر کے ساتھ ننگے پیر ایسے آگے بڑھتا ہوا نظر آ رہا ہے جیسے تیز دوڑتا ہو۔ ان دونوں کے درمیان میں اس کا بیٹا بھی ننگے پیر چلتا آ رہا ہے۔ ویڈیو میں نظر تو یہ آتا ہے کہ نصیر بلوچ اور اس کا دوست تیز بھاگ رہے ہیں لیکن وہ چھوٹا سا بچہ اپنی ہی دھن میں، اپنی رفتار سے دیکھ بھال کر، آہستہ آہستہ چل رہا ہے۔ اب اگر نصیر بلوچ تیز بھاگے تو اپنے بیٹے سے بہت آگے نکل جائے گا لیکن وہ کیا کرتا ہے؟ وہ نظر تو یوں آ رہا ہے کہ کسی اتھلیٹ کی طرح تیز بھاگتا دکھائی دیتا ہے لیکن۔۔۔ اس کی رفتار بالکل اتنی ہی ہے جتنی کہ اس بچے کی ہے۔ وہ ویڈیو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ وہ تینوں تیز رفتاری سے آگے بھی بڑھ رہے ہیں اور دھیمے بھی ہیں۔ وقت تیزی سے گزر بھی رہا ہے اور یہ ٹھہرا بھی ہوا ہے۔
یہ ویڈیو دیکھ کر جیسے گتھی سلجھ گئی۔ اینٹ کے بھٹے پر مزدوری کرنے والا نصیر بلوچ، بقول شخصے، بازی لے گیا۔ صاحبو۔۔۔ جیسے بادل چھٹ گئے۔ مجھے یہ پتہ چلا کہ آدمی نے آخر مر ہی جانا ہے۔ وہ آج مرے، کل مرے۔۔۔ چالیس برس کی عمر میں مرے۔۔۔ سو برس پورے کر لے یا پھر پردادا بن کر مرے لیکن آخر ہم نے مر ہی جانا ہے۔ یہ آج تک کی، پہلی حققیت ہے۔ پھر مجھے یہ پتہ چلا کہ وقت ہے۔۔۔ یہ گزر کر ہی رہے گا۔ اسے روک لگانا، ٹھہرانا ناممکن ہے۔ یہ دوسری حقیقت ہے۔
یہ دونوں حقیقتیں تو گویا، اٹل ہیں۔ مجھے آخر میں یہ پتہ چلا کہ ہم اپنی حقیقت بھی تخلیق کر سکتے ہیں۔ ایسی تصوراتی حقیقت کہ جس میں وقت ٹھہر جاتا ہے اور ہم طویل مدت تک جی بھی سکتے ہیں۔ میں نے یہ سمجھ لیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ مجھے جلد یا بدیر حقیقت کا سامنا تو کرنا ہی ہے لیکن۔۔۔ مجھے اپنی حقیقت بھی تخلیق کرنی ہے۔ اس کے لیے صرف اتنا کرنا ہے کہ اپنی رفتار میں کمی لانی ہے اور اسے تماز کی رفتار کے ساتھ ملانا ہے۔ پھر کیا ہو گا؟ پھر یہ ہو گا کہ بھلے میں چالیس برس کی عمر میں مر جاؤں لیکن میں آہستہ، آہستہ۔۔۔ ایک ایک لمحہ خوب مزے لے لے کر بسر کروں گا۔ پھر گھنٹے دن اور سال صدیاں بن جائیں گی۔ میں ایک ایک دن میں کئی کئی برس جی پاؤں گا۔ لیکن، اس کام کے لیے آپ کو ایک پیارا چاہیے۔ اس پیارے کو ہمراہ رکھنا ضروری ہے، اس کے قدم میں قدم ڈال کر چلنا، واحد شرط ہے۔
اب میں کیا کرتا ہوں؟ میں نے یہ بھی جانا ہے کہ جتنے پیارے ہوں گے، یہ وقت اتنا ہی پھیلتا جائے گا۔ تو اب میں اور کچھ بھی نہیں کرتا۔ بس پیارے ڈھونڈتا رہتا ہوں۔ جب مجھے کوئی پیارا ملتا ہے تو میں اسے پکار کر کہتا ہوں، کیوں بھئی پیارے۔۔۔ ایک ایک لمحے میں سو سو سال جینا چاہتے ہو؟

- ختم شد -
حوالے:
کولیٹرل بیوٹی
نصیر بلوچ / ٹک ٹاک ویڈیو




ایک لاکھ سال پہلے کرہ ارض پر انسانوں کی کم از کم چھ انواع پائی تھیں۔ آج صرف ایک ہے۔ وہ ہم ہیں یعنی، خرد مند آدمی!
ہم آدمیوں کی نوع انسانی نے غلبے کی یہ لڑائی کیسے جیتی؟ ہمارے تاختی اور شکاری، آزاد منش آباو اجداد شہر اور بادشاہتیں بسانے کو اکٹھا کیوں ہو گئے؟ ہم خداوں، اقوام اور انسانی حقوق میں یقین رکھنے کی نہج پر کیوں پہنچے؟ ہمیں زر، پیسے، کتب اور قوانین میں بھروسا کیوں ہے؟ ہم بیوروکریسی، نظام الاوقات اور صارفیت کے غلام کیوں ہیں؟ اور اگلی ہزاری میں ہماری دنیا کیسی ہو سکتی ہے؟
آدمی: بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ میں ڈاکٹر یووال نوحا ہریری نے پوری انسانی تاریخ کو کھنگال کر رکھ دیا ہے۔ اس دھرتی پر چلنے پھرنے والے پہلے انسان سے لے کر انتہائی بنیاد پرست جو بعض اوقات انتہائی تباہ کن ثابت ہوا۔ اس کتاب میں شعور اور آگاہی، زرعی اور سائنسی انقلاب کے مراحل کو طے ہوتا دکھایا گیا ہے۔ حیاتیات، بشریات، رکازیات اور معاشیات کے علم کی مدد سے مصنف نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ تاریخ کی لہروں نے انسانی معاشروں، ہمارے اردگرد بسنے والے حیوانات اور نباتات۔۔۔ یہاں تک کہ خود آدمی کی شخصیت کو کیسے شکل دی ہے؟ کیا جیسے جیسے تاریخ کی تہیں کھلی ہیں۔۔۔ ہم خوشی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟ کیا ہم اپنے رویوں اور طرز کو اپنے آباواجداد کے دیے ہوئے ورثے اور تفکر سے آزاد کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے؟ اور اس سے بھی اہم۔۔۔ کیا ہم آنے والی صدیوں میں بسنے والوں پر اثرانداز ہونے میں کیا کردار ادا کر رہے ہیں؟
اس کتاب میں نظر آتا ہے کہ آدمی نے کس قدر دلیری، بے انتہا کی بے خوفی دکھاتے اور غضب کی اشتعال انگیزی سے ہر ہر شے کو کچھ یوں چھیڑا ہے کہ سوچ، فکر، افعال، طاقت اور مستقبل میں آدمی کا انسان ہونا عجب سے عجب تر ہوتا جاتا ہے۔

کتاب ڈاون لوڈ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
یہ جو شاعر ہوتے ہیں۔۔۔ ہر ایرا غیرا نہیں بلکہ یہ جو اچھے شاعر ہوتے ہیں، آخر کار ہمارے شاعر بن جاتے ہیں۔ اب جون ایلیا کی ہی مثال لے لیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ کئی ان سے نالاں ہیں لیکن یہ وہی کہہ گزرے ہیں کہ زندگی میں خوش رہنے کے لئیے بہت زیادہ ہمت بلکہ بہت زیادہ بے حسی چاہئیے۔
اسی لیے جون ایلیا ساری عمر جل بھن کر، سڑ سڑ کر جیے کہ شاید وہ بے حس نہیں تھے۔ ایک اچھے شاعر کی خاصیت ہے کہ وہ حساس ہوا کرے۔ اسے احساس نام کی چڑیا سے جی لگانا پڑتا ہے۔ اسے گھٹ گھٹ کر جینا پڑتا ہے، تبھی تو اچھی شاعری جنم لیتی ہے۔ نزول ہوتا ہے، لفظ جڑتے ہیں اور مانند لڑیوں میں موتی پروے جاتے ہیں۔ شعر کہے جاتے ہیں۔
اچھے شعر کو داد دینی چاہیے۔ اس سے جی نہیں لگانا چاہیے ورنہ بڑا مسئلہ ہو جاتا ہے۔ میں نے کہیں پڑھا تھا بلکہ یوں کہیے کہ کسی مشہور شخص کا کہا پڑھا تھا کہ شاعری سے دور رہو، بالخصوص اچھی شاعری سے تو کوسوں دور رہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اچھے شعروں میں یہ گن ہوتا ہے کہ وہ ایسی ایسی کیفیات سے آشنا کروا دیتے ہیں جو حقیقت میں کبھی طاری ہی نہیں ہوئیں۔ شعر، محبت میں مبتلا کر سکتے ہیں۔ ایک مرتے ہوئے آدمی کا نزع محسوس کر سکتے ہیں اور بھوک میں گھٹ گھٹ کر جیتے ہوئے بچے کی کیفیت آپ کے بھرے پیٹ میں افلاس کے مروڑ اٹھا دیتی ہے۔۔۔ اسی لیے، میں نے نظمیں کبھی غور سے نہیں پڑھیں اور غزلوں کو تب سے پڑھنا چھوڑ دیا، جب سے ان کے شعر مڑ مڑ چہرے پر تھپڑوں کی طرح برستے ہیں۔
بھلے لوگو، تم بھی شاعری سے دور رہا کرو۔۔۔ یہ تمھارے تخیل کو وہاں پہنچا سکتی ہے جہاں سے مڑ کر واپس آنا دشوار ہو جاتا ہے۔ یاد رکھو، تمھارا تخیل کوئی بلی نہیں ہے کہ جسے جتنی دور چھوڑ کر آؤ۔۔۔ وہ واپس اپنے گھر لوٹ آئے گی۔ تخیل تو بھئی، ایک دفعہ اڑان بھر لے۔۔۔ پھر کس نے لوٹتے دیکھا ہے؟ ایسی ایسی جگہ بسیرا کر لیتا ہے کہ جہاں سوچ کی چڑیاں بھی کبھی پر نہ ماریں۔۔۔
لیکن اب پہلے سے خاصی مشکل ہو گئی ہے۔ پہلے پہل، شاعری تخیل کو با آسانی دوڑا دیا کرتی تھی۔ اب اس کی حاجت ہی نہیں رہی۔ موبائل فون نے سب تہس نہس کر دیا ہے۔ کیمروں سے چھکا چھک تصاویر بنتی ہیں اور فوراً انٹرنیٹ اور میگزینوں کا پیٹ بھر دیتی ہیں۔ اب لوگوں کے تخیل کو شاعری نہیں بلکہ ساکت اور محرک تصاویر بھڑکاتی ہیں۔ یہ وہ دور ہے کہ اب ضمیر کو سوچ نہیں بلکہ ٹینک کے سامنے کھڑا نہتا شخص، فوجیوں کو مکے دکھاتی لڑکیاں، ساحل پر بہہ کر آنے والی آلان کی لاش اور پیلٹ گولیوں سے داغ دار گالوں کی تصاویر جھنجھوڑتی ہیں۔۔۔۔ بلکہ، اب تو تصویروں کو دیکھ دیکھ ان پر شاعری لکھی جاتی ہے۔ کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔۔۔ پہلے پہل تخیل سے نکلی شاعری پر تصاویر بنتی تھیں، اب تصویروں پر شعر کسے جاتے ہیں۔
تصاویر سے یاد آیا، آج سولہ دسمبر ہے۔ کل ہی ایک ٹویٹ نظر سے گزری۔ اس ٹویٹ میں لکھا تھا، 'کل سولہ دسمبر ہے۔۔۔ خدارا، تصاویر شئیر کرنے سے گریز کریں'۔ مجھے یقین ہے کہ ہر آدمی کی طرح ان صاحب کا بھی سولہ دسمبر کی تصاویر دیکھ کر دل دہل جاتا ہو گا۔۔۔ لیکن مجھے ایسا بھی لگتا ہے کہ پانچ برس گزرنے کے بعد، اب ہم سولہ دسمبر کی تصاویر دیکھنا ہی نہیں چاہتے۔ ہمارے دہل تو دہلتے ہی ہیں۔۔۔ اب شرمندگی بھی ہوتی ہے۔ ہم دہل کر تو جی سکتے ہیں لیکن حضور، خدارا تصاویر شئیر مت کیجیے کیونکہ ہم توغیرت کے مارے لوگ بھی ہیں۔ ہماری غیرت گوارا نہیں کر سکتی کہ ہم سولہ دسمبر کی تصاویر دیکھا کریں اور چلو بھر پانی میں ڈوب جانے کا دل ہوا کرے۔۔۔ غیرت کو کیسے مار دیں؟ یا کیا پتہ؟ اب تصاویر بھی ہمیں جھنجھوڑنے سے قاصر ہیں۔
رہی بات شاعری کی؟ میں نے سولہ دسمبر کی تصاویر پر لکھی شاعری بھی پڑھ رکھی ہے اور بہت پڑھی ہے۔ اچھے اچھے شاعروں نے شعر باندھے ہیں اور خوب باندھے ہیں۔ اتنے اچھے اچھے شعر ہیں کہ کیا بتاؤں؟ اگر تصاویر دیکھ کر دل دہل جاتا ہے تو وہ شعر پڑھ کر تو کلیجہ منہ کو آنے لگتا ہے۔ تخیل اڑان نہیں بھرتا بلکہ جیسے کسی پاتال میں نیچے ہی نیچے گرتا چلا جاتا ہے۔
لیکن پتہ کیا؟ ہمارے بچے ہیں۔ وہ بچے تخیل میں نہیں ہیں۔۔۔ وہ بچے حقیقت ہیں۔ وہ بچے، مجھ ایسے زندگی کے ماروں کا سہارا ہیں۔ ہماری حقیقی خوشی ہیں۔ میں سولہ دسمبر کی تصاویر سے کنی کر سکتا ہوں، سولہ دسمبر پر لکھی شاعری سے منہ بھی موڑ سکتا ہوں لیکن اپنے بچوں سے نظریں نہیں چرا سکتا۔
میں خود غرض ضرور ہوں لیکن عجیب و غریب بھی ہوں۔ مجھے بتاتے شرم آتی ہے لیکن کیا بتاؤں؟ مجھے تو اکثر اپنے بچوں کے بارے سولہ دسمبر جیسے ہولناک خیال آتے ہیں۔۔۔ لیکن سوچ کی چڑیا جیسے پھڑپھڑا کر مر جاتی ہے۔ تخیل جواب دے جاتا ہے۔ ایسی کوئی تصویر، کوئی شعر ہے ہی نہیں کہ جو میرے اس خیال کو پروان دے سکے۔۔۔ اس خوفناک خیال کو ئی شے ایسی نہیں جو پکڑ سکے۔ اس کا احاطہ کر سکے۔ ایسے میں مجھے ایک جھرجھری کے سوا کچھ نہیں سوجھتا ، جیسے سولہ دسمبر کے مارے ایک باپ کو سامنے دیکھ کر خاموشی کے سوا کچھ سوجھا ہی نہیں تھا۔
ایسے میں، جھرجھری اور کچھ دیر کی خاموشی کے فورا بعد۔۔۔ بالکل اگلے ہی لمحے، چونکہ اس دنیا میں جینا ہے تو بقول ایک اچھے اور ہمارے اپنے شاعر، جون ایلیا۔۔۔ زندگی میں خوش رہنے کے لیے بے پناہ ہمت بچھاتا ہوں اور بے حسی کی چادر اوڑھ لیتا ہوں۔ آخر، اس دنیا میں خوشی سے جینے کے لیے ہمت اور بے حسی ہی تو درکار ہے۔ صاحبو، خدا جون ایلیا کو غارت کرے، اس نے ہمیں یہ کیسا گر سکھا دیا ہے؟ ان موے شاعروں، بلخصوص اچھے شاعروں سے دور رہنا چاہیے تھا۔ یہ کوئی اچھی بات تو نہیں ہے لیکن ہم خاصے بے حس واقع ہوئے ہیں۔ اس کے بل بوتے پر ہم زندگی میں بہت خوش رہ سکتے ہیں۔ ابھی کچھ ماہ قبل خبر آئی تھی کہ ہم خوش رہنے والی اقوام کے درجے میں کافی اوپر ہیں۔۔۔ کئی ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ملکوں سے کافی آگے ہیں۔ ہم جیتے جاگتے آدمیوں کو تو جلا دیتے ہیں لیکن ایسی بے حسی پر مبنی خوش کن زندگی کو کوئی آگ کیوں نہیں لگاتا؟
جہاں پولیس اور عدلیہ کا حال یہ ہو، پاکستان کی عوام کا مکمل طور پر مختلف اور بہتر انصاف کے نظام کا خواب دیکھنا قدرتی امر ہے۔ اس ضمن میں عوام کی اکثریت شریعت سے امیدیں وابستہ کرتی ہے۔ مجھے پاکستان کے طول و عرض میں عام لوگوں سے بات چیت کا موقع ملا ہے۔ میں نے طالبان کے ساتھ ملک کے بعض حصوں، جیسے سوات میں 2002ء کے نظام عدل معاہدے کی بابت رائے جاننا چاہی تو پشتون علاقوں میں اس کی بے پناہ حمایت دیکھنے میں آئی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان علاقوں میں شرعی نظام عدل بابت پہلے پہل تو خوب چرچا تھا لیکن جب طالبان نے پشتون خطے میں ساتھ ساتھ طاقت اور اختیار بھی ہتھیانا چاہا تو عوام کی اکثریت کترانے لگی۔
پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے دونوں اطراف باسی جانتے ہیں کہ 1990ء کی دہائی میں افغان طالبان نے شرعی نظریات کے بل بوتے پر افغان مجاہدین کے ہاتھوں پھیلی افراتفری پر قابو پا کر حکومت قائم کی تھی اور امن لوٹ آیا تھا۔ دنیا کے ایک دوسرے کونے، صومالیہ میں بھی اسلامی عدالتوں کی صورت میں شریعت کا ایسا ہی تصور پایا جاتا ہے ۔ صومالیہ کی عوام بھی طویل عرصے سے ملک میں امن کی متمنی تھی۔
افغان طالبان نے اس تصور کو عملی جامہ پہنایا ۔ اس بارے 1989ء میں افغان صوبے پکتیکا میں ایک 'قاضی' نے میرے علم میں اضافہ کیا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب افغانستان میں روس کو شکست ہو چکی تھی اور ملک میں مجاہدین کے ہاتھوں 'آزادی' نصیب ہونے کے بعد کسی باقاعدہ حکومت کا کوئی وجود نہیں تھا۔ میں نے قاضی سے پوچھا، 'کیا وہ ملک میں کمیونسٹوں کی شکست کے بعد مجاہدین کے قبضے اور تیزی سے پھیلتی ہوئی انارکی سے خوفزدہ نہیں ہے؟ ' تس پر جواب ملا، 'بالکل نہیں۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پشتونوں کے اپنے رواج اور روایات ہیں ۔ ہم پشتون ولی کی مدد سے تنازعات کا حل اور امن قائم رکھ سکتے ہیں۔ اگرچہ پشتونولی سے ہر طرح کی لڑائی کا حل تو نہیں نکل سکتا لیکن یہ ان جھگڑوں کو شدت اختیار کرنے سے ضرور روک سکتی ہے۔ اگر پشتونولی بھی کام نہ آئی تو ہمارے پاس شریعت تو ہر دم موجود ہے۔ اسلام اور شریعت کی تو سبھی عزت کرتے ہیں اور میرا کام شریعت کے تحت انتظام سنبھالنا ہے۔'



لیکن سوال یہ ہے کہ 'شریعت' اصل میں کیا ہے؟ یہ ایسی کیا شے ہے جس کی ہر عام آدمی کو خواہش ہے اور صرف طالبان ہی اس کے نفاذ کے دعویدار ہیں؟ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے بخیے ادھیڑنا ضروری ہے۔ ایک سطح تو یہ ہے کہ ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ شریعت کی تائید کا اقرار کرے اور اس کی حمایت بھی لازم ہے کیونکہ کسی بھی مسلم معاشرے میں اس کی بنیادی شکل اور ضرورت قران سے واضح ہے۔ قران خدا کی طرف سے نازل کردہ کلام ہے جو رسول خدا کے ذریعے مسلمانوں تک پہنچا۔ دوسری جانب عام لوگ شریعت کو نظام زندگی یعنی دین کا دستور بھی قرار دیتے ہیں جس میں بہتر، سادہ، مساوات پر مبنی، کھرے اور قابل حصول انصاف فراہم کیا جاتا ہو۔ عام طور پر لوگ اس طرح کے دین یا شریعت پر مبنی نظام زندگی کے اصولوں کی تفصیل سے لاعلم ہوتے ہیں یا کہیے کہ شریعت کی مختلف اشکال میں پیچ و خم سے نابلد ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کسی شخص پر چوری ثابت ہو جائے تو شریعت کی رو سے ہاتھ کاٹنے کا حکم ہے۔ وہ لوگ جو شریعت کے زور و شور سے حمایت کرتے ہیں، چند پشتون علاقوں کے سخت گیر مسلمانوں کے سوا اکثریت اس طرح کی سزا کے تصور سے کھلم کھلا انکار کر دیں گے۔ تا ہم، اس انکار کے باوجود بھی وہ شریعت ہی کا سہارا لے کر زرتلافی اور مفاہمت کی ضرورت پر زور دیں گے۔
قاعدے اور طریقے کی رو سے بات آگے بڑھائی جائے تو پاکستان میں شرعی قوانین متعارف کروانے کا تصور اور اس کی ہر دم ضرورت بارے آواز اٹھانا غیر ضروری ہے۔ وہ یوں کہ 1970ء کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے آج تک، آئین پاکستان میں پہلے ہی تمام تر پاکستانی قوانین کو شرعی بنیادوں پر استوار ہیں اور کوئی قانون شریعت کے منافی نہیں ہے۔ لیکن عملی طور پر یہ غیر متعلق اور بے محل ہے۔ قانونی طور پر دیکھا جائے تو اس سے بڑی گڑ بڑ اور تضاد کا ایسا بھنور پیدا ہو گیا ہے جس میں پاکستان کے قانونی حلقے ہر دم گھرے رہتے ہیں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شریعت کے نفاذ پر زور دیتی ملک میں تحاریک اور مہمات کا محور شرعی قوانین اور اس کے مندرجات نہیں ہے بلکہ یہ ہر دم شرعی قوانین تک رسائی، ان قوانین کے تحت جلد از جلد انصاف کی فراہمی اور شرعی قوانین لاگو کروانے کے لیے بے پایاں اختیار کا حصول ہے۔
پاکستان میں شریعت کو بطور نظام انصاف متعارف کروانے کی کوشش اور مقامی ملاؤں کو جج اور قاضی بنانے کے لیے طالبان اس حد تک گئے ہیں جس کا اس سے قبل تصور ہی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اس خطے کی تاریخ میں بھی ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ انگریزوں سے قبل جنوب ایشیاء کی مسلمان ریاستوں کا دستور ظاہر ہے، شریعت ہی تھا لیکن اس کو لاگو کرنے کا حق صرف ریاستی حکام اور دارالحکومتوں کے ہاتھ میں ہوا کرتا تھا۔ دیہی علاقوں، مضافات اور مقامی سطح پر تو مسائل اور مقدمات کو نبٹانے کے لیے تب بھی رسم و رواج اور علاقائی ضابطے استعمال میں لائے جاتے تھے تا ہم ایسا اسلام کی بنیادی تعلیمات کی روشنی میں کیا جاتا تھا۔
لیکن یہ بحث پھر وہیں پہنچ جاتی ہے کہ پاکستانی طالبان اور ان کے اتحادی، زیر اثر علاقوں میں شریعت نہیں بلکہ شریعت اور پشتونولی کا مرکب بنا کر لاگو کرنا چاہتے ہیں۔ افغانستان میں گیارہ ستمبر سے قبل کے افغان طالبان اور مغربی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے سبب نوساختہ طالبان میں یہی فرق ہے۔ آج اس پورے خطے میں پشتونولی اور طالبان کی پسندیدہ وہابی طرز کی شریعت کے بیچ جھولتے ہوئے، شریعت کی اصل روح اور ترقی پسند پہلو یکسر نظر انداز ہو چکے ہیں اور طالبان کے ایجنڈے میں اس کا دور دور تک نشان نہیں ملتا۔ تاہم یہ طے ہے کہ پاکستانی طالبان پشتونوں کے قبائلی رسم و رواج کی نسبت شریعت کے معاملے میں زیادہ سخت اور کٹر واقع ہوئے ہیں اور یہی خاصیت انہیں افغان طالبان سے الگ کرتی ہے۔ اس خطے میں شریعت کا معاملہ یہ ہے کہ انگریز حکام بھی اپنے دور میں اس کی افادیت کو سراہتے رہے ہیں اور یہاں اسی کے تحت انتظام چلانے پر زور دیتے آئے ہیں۔ 1906ء میں بلوچستان کے برٹش گزیٹیر (فرہنگ جغرافیہ) میں درج ہے:
'بیواؤں کی سماجی حیثیت سر ہوگ بارنز (گورنر جنرل کے پولیٹیکل ایجنٹ) کے مندرجہ ذیل نومبر 1892ء کے ایک مقدمے، لقمان کاکڑ بنام تاج برطانیہ کے فیصلے کے نتیجے میں مضبوط ہوئی ہے:
بیواؤں کا دوبارہ شادی کرنے اور شوہر کے انتخاب سے متعلق یہ ہے کہ قانون محمدی کو ہر صورت مقامی غیر انسانی اور جہالت پر مبنی رواج پر فوقیت دینی چاہیے ۔ اس ضمن میں کسی بھی طرح سے کوئی سمجھوتا قابل قبول نہیں ہونا چاہیے۔ بلوچستان کے بندوبستی اور قبائلی علاقوں میں جہاں بھی تاج برطانیہ کی عدالتوں کے سامنے بیواؤں کی دوبارہ شادی سے متعلق مقدمات پیش ہوں، معزز عدالتوں کو چاہیے کہ وہ قانون محمدی میں فراہم کردہ شرائط کے تحت ہی فیصلہ کریں۔ قانون محمدی بیواؤں کو دوبارہ شادی کرنے اور شوہر کو منتخب کرنے کی مکمل آزادی اور صوابدید عطا کرتا ہے۔ اس طرح کا کوئی بھی مقدمہ جرگے کے حوالے نہ کیا جائے اور اگر ایسا کرنا ضروری ہو تو شرط لاگو کی جائے کہ جرگہ کسی بھی صورت بیوہ کی حق آزادی اور صوابدید پر سمجھوتا نہیں کرے گا اور قانون محمدی کے منافی کوئی فیصلہ کسی صورت اور کسی بھی حال میں قابل قبول نہیں ہو گا۔ یہی نہیں بلکہ مقامی جرگہ بیوہ کو وہ تمام حقوق فراہم کرنے کا بھی پابند ہو گا اور ذرہ برابر بھی کاٹ چھانٹ اور تخفیف کا اہل نہ ہو گا جو اسے قانون محمدی کے تحت عطا ہوئے ہیں۔'
برطانوی دور میں، مسلم شریعہ ایکٹ 1937ء لاگو کیا گیا تھا جس کا اطلاق مسلمانوں پر ہوتا تھا۔ اس ضمن میں ریاستی سطح پر مسلمانوں کے لیے تمام مقامی رسوم، رواج اور ضابطے منسوخ کر کے شخصی، شادی بیاہ اور وراثت وغیرہ کے معاملات کو شرعی قوانین کے ساتھ بدل دیا تھا۔ ہندوستان میں انگریزی حکومت نے اس ایکٹ کی توجیہ یہ پیش کی تھی کہ شرعی قوانین، مقامی رسم و رواج پر مبنی ضابطوں کے مقابلے میں جامع اور حتمی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان شرعی قوانین سے معاشرے میں تیقن کی حالت بھی پیدا ہوتی ہے۔ تاہم، اس ضمن میں ایم پی جین نے لکھا ہے:
'مقامی رسوم اور رواج کو منسوخ کرنے کی مضبوط وجہ مسلمانوں میں شرعی قوانین کی مقبولیت تھی۔ اس مقبولیت کی ایک بڑی وجہ شریعت کی رو سے مردوں کا حق وراثت عورتوں کی نسبت زیادہ تھا۔ مقامی رسوم اور رواج کی تنسیخ، جمیعت علمائے ہند (آج کی جمیعت علمائے اسلام کی پیشرو) کی جانب سے مسلسل شورش، ہیجان اور اشتعال کا نتیجہ تھا۔ یہ جماعت کٹر ملاؤں اور سخت گیر مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ جہاں یہ، وہیں اس ضمن میں عورتوں کی کئی مسلمان تنظیموں نے بھی مقامی رسوم اور رواج کو منسوخ کرنے کی حمایت کی کیونکہ مقامی رسم رواج پر مبنی طریقہ کار عورتوں کے حقوق غصب ہونے کا سبب تھے۔'
پاکستان کے پشتون علاقوں میں آج بھی پڑھی لکھی خواتین اپنے حقوق سے متعلق اور اس فرق کے بارے اچھی طرح آگاہ ہیں۔ مئی 2007ء میں پشاور یونیورسٹی کے ایک ہال میں جامعہ کے طلباء اور طالبات کے ساتھ ایک دلچسپ مکالمہ ہوا۔ اس مکالمے کا موضوع یہ تھا کہ 'کیا طالبان کا تجویز کردہ سخت شریعت کا نظام پشتونولی کی روایات کے منافی ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو پھر ان دونوں میں سے کونسا نظام بہتر ہے؟' مکالمے میں پہلے پہل تو شرکاء کی اکثریت اس بات پر زوردار بحث میں مشغول رہے کہ ان دونوں روایات، یعنی شریعت اور پشتونولی میں کوئی فرق ہی نہیں ہے۔ تبھی، پشاور یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے دلیل دی کہ 'سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ بحیثیت پشتون، میری روایات اور رواج۔۔۔ چاہے وہ اچھے ہیں یا برے ہیں۔۔۔ پنجاب سے بہرحال مختلف ہیں لیکن شریعت، ایک ہی ہے۔' اس حتمی دلیل پر ہال میں موجود سبھی شرکاء نے حمایت میں خوب تالیاں بجائیں۔
لیکن جب میں نے شریعت یا پشتونولی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے پر زور دیا اور اس پر ووٹنگ کروائی تو بھرے ہوئے ہال میں بارہ نے پشتونولی اور چودہ نے شریعت کو فوقیت دی جب کہ اکثریت نے سرے سے ووٹنگ میں حصہ ہی نہیں لیا۔ دلچسپ امر یہ تھا کہ ہال میں موجود طلباء نے پشتونولی، جبکہ طالبات نے شریعت کو منتخب کیا۔ ظاہر ہے، ان طلباء اور طالبات کو پشتونولی یا شریعت کو فوقیت دینے کے اپنے فیصلے کی تفصیلی وجوہات بیان کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن وہ ووٹنگ سے قبل جاری بحث سے بالکل واضح تھی۔ مغرب سے تعلق رکھنے والوں اور مغربی نظریات کے حامیوں کو شریعت کے تقاضے سخت گیر محسوس ہوتے ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان شرعی قوانین میں پشتونولی کی عورتوں سے متعلق سنگدلی اور بے رحمی پر مبنی روایات کو یکسر ممنوع قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر تنازعات کے حل میں عورتوں کے تبادلے کی شریعت میں سختی سے ممانعت ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ساتویں صدی میں قران نے محمد کے ذریعے عرب قبائلیوں کو لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے اور عورتوں کے ساتھ سختی اور زیادتی سے پیش آنے سے منع کیا تھا۔
شریعت کی رو سے عورتوں کو حق وراثت ملنے کی بھی یقین دہانی ہوتی ہے جبکہ پشتونولی میں وراثت صرف مردوں کو منتقل ہوتی ہے اور مردوں کے بیچ ہی تقسیم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح شریعت عورتوں کو طلاق یا بیوگی کی صورت میں حقوق بھی دلاتی ہے۔ شریعت کی یہی ترقی پسند سوچ ہے جس پر متحدہ مجلس عمل (اسلام پسند سیاسی جماعتوں کا اتحاد جس نے صوبہ سرحد میں حکومت بھی قائم کی تھی) کے انفارمیشن سیکرٹری نے اسی شام ملاقات میں بھی زور دیا تھا۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ متحدہ مجلس عمل بالعموم اور ان کی جماعت بالخصوص اس خطے میں قبائلی بربریت کی جگہ شرعی ترقی پسند سوچ نافذ کرنے کی حامی ہے۔
اس کے باوجود طالبان جس شریعت کا پرچار کرتے ہیں، اس کے پاکستان بھر میں پھیلنے اور نفاذ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس کی وجوہات وہی ہیں جو طالبان کو پاکستان کا اقتدار اور اختیار کرنے سے بھی روکے ہوئے ہیں۔ان وجوہات میں اول تو یہ ہے کہ ملک کی حکمران اشرافیہ ہر صورت میں اپنا اقتدار برقرار رکھنے کے لیے شرعی طریقہ کار کے ساتھ مصلحت پسندی میں کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔ دوسرا یہ کہ اشرافیہ اسلامی انقلاب کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جائے گی اور جہاں ضرورت پڑی، ملک میں طالبانی انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے سخت اور پرتشدد آہنی طریقے استعمال کرنے سے بھی گریز نہیں کرے گی۔



یوں، لے دے کر آخر ملک میں صرف معتدل اسلام پسند طاقتیں رہ جاتی ہیں جو پاکستان میں شرعی نظام کی وہ صورت نکال سکتی ہیں جیسی کہ ایران کی جدید اسلامی ریاست میں نافذ ہے اور اس دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی محسوس ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں ایران جیسا شرعی نظام لانا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں اسلام پسند جماعتیں اور دھڑے شریعت کی مختلف طرحوں پر یقین رکھتے ہیں اور ملک میں اس کی کونسی شکل نافذ ہو، اس پر رائے عامہ ہموار نہیں ہو سکتا کیونکہ ان گروہوں اور دھڑوں میں اس بابت اتفاق ہی موجود نہیں ہے۔ ایران کا معاملہ برعکس ہے جہاں شیعہ اسلام کی اکثریت ہے اور شریعت کی قسم بابت یک جہتی اور اتفاق پایا جاتا ہے۔ پاکستان میں سب سے اول تو شیعہ اور سنی منقسم ہیں اور پھر سنی بیسیوں شاخوں میں مزید بٹے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں اسلامی انقلاب کی راہ میں حائل ان رکاوٹوں پر اگلے ابواب میں مزید بحث کی جائے گی۔

حالات اتنے تو بدتر نہیں، جس قدر یہ نظر آتے ہیں

پاکستان کی عدالتوں بارے اس سے قبل ابواب کو دوبارہ پڑھا تو محسوس ہوا کہ تصحیح کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کے عدالتی نظام بارے بیان، بالخصوص تعزیزاتی نظام انصاف کا مرکز نگاہ قدرتی طور پر جرائم اور جرائم کی تعزیز سے متعلق ہونا چاہیے۔ زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان کے عدالتی نظام کا نقشہ کھینچا جائے تو وہ ایسا ہی ہو گا جیسا کہ بیان کیا گیا ہے۔ لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ پاکستانی معاشرہ اس سبب ہر وقت انتشار اور افراتفری کے عالم میں تشدد میں گھرا رہتا ہے۔ اس ضمن میں کئی اہم نکات ذہن میں رکھنا لازم ہیں۔ اول تو یہ کہ جرگہ اور پنچایت کا جس نظام انصاف بارے تفصیلاً بات ہو چکی ہے، ان کا میکانیہ ہی معاشرے کو درست راہ پر رکھنے اور معاملات کو تشدد کی جانب بڑھنے سے روکنا ہے۔ عام طور پر جرگے یا پنچایتیں اس مقصد میں کامیاب رہتی ہیں۔ اس ضمن میں، یعنی تشدد کی روک تھام میں مقامی صوفیاء اور ان کے ورثاء کا کردار بھی نہایت اہم ہے جن کا پیغام امن اور شانتی ہی ہے۔ 
جیسا کہ سٹیفن لوہن نے درست سمت میں اشارہ کیا تھا، ہمیں ان معاملات اور جنوب ایشیائی معاشروں کے بارے بالخصوص مبالغہ آرائی اور غلو پر بھی بھرپور نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر دیہی علاقوں میں حالات واقعی اس قدر ابتر ہوتے یا تشدد عام ہوتا تو بقول سٹیفن، 'شاید آج کوئی مرد زندہ نہ ہوتا اور کوئی عورت جنسی زیادتی سے بچی ہوئی نہ ہوتی'۔ سیاسی بنیادوں پر تشدد کو ایک طرف رکھ دیا جائے تو پاکستان جرائم کی شرح سے نہایت پرامن جگہ ہے، بلکہ کئی یہاں جرائم کا تناسب کئی امریکی شہروں سے بہتر ہے۔ میکسیکو اور برازیل میں جرائم کی شرح کا تو پاکستانی معاشرے سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جس قدر غربت ہے، اس لحاظ سے جرائم کی شرح (سیاسی و  مذہبی تشدد اور 'غیرت' کے نام پر جرائم کے سوا) نمایاں طور پر کم ہے۔ 
اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں انتہائی با اثر زمیندار اور کاروباری سیاستدانوں کا تسلط ہے جو اگر واقعی ضرورت پڑے تو قتل کرنے کے احکامات جاری کرنے کے بھی تیار رہتے ہیں۔ ان سیاستدانوں کی یہ حیثیت اور دبدبہ کسی جرم پیشہ گینگ سے تعلق یا ڈراوے پر مبنی نہیں ہے بلکہ انہیں یہ رتبہ وراثت میں ملا ہے۔ جہاں یہ، وہیں ان کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ مقامی سطح پر عوام کی رائے عامہ کا احترام کرتے ہیں اور کسی بھی معاملے میں اخلاقی طور پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ اس طرح 'عزت' کا تصور مزید پختہ ہوتا ہے اور لوگ اسی سبب ان کی رائے کا احترام کرتے ہیں اور معاشرے میں قتل و غارت کا رجحان کم سے کم رہتا ہے۔ پاکستانی معاشرے کی ایک اور خصوصیت یہاں دوسرے معاشروں جیسے بھارت اور بنگلہ دیش کی نسبت طبقاتی تقسیم حد سے تجاوز نہیں کرتی۔ لیکن طبقاتی تقسیم صرف دوسرے معاشروں سے نسبت کی بناء پر کم ہے، پاکستان کے اپنے معاشرتی تناظر میں یہ اب بھی کافی زیادہ ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان کے اکثریتی علاقوں میں قبائل اور سردار وغیرہ گویا خودمختار مسلح دھڑوں کی صورت، اپنی ہی من مانی کرتے پھرتے ہیں لیکن یہی امر تو قرون وسطیٰ کے یورپ بارے بھی درست ہے۔ یورپ نے اسی طرح کی مشکلات کے باوجود وقت کے ساتھ ثقافتی اور معاشی لحاظ سے ترقی کر لی۔ کئی 'جاگیرداروں' اور قبائلی سرداروں کے الفاظ دہراؤں تو زیادہ تر جن مسلح گروہوں کو وہ پالتے ہیں، ان کا مقصد جنگ و جدل نہیں بلکہ لڑائی اور جھگڑے کو روکنا ہے۔ ان مسلح گروہوں کی مدد سے وہ دوسروں کو اپنی طاقت دکھاتے ہیں، ایسی طاقت جس سے کسی کو بھڑنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ یوں، خلاف قیاس تشدد کا استعمال بجائے کمزوری بن جن جاتا ہے اور اس سے ان جاگیرداروں اور سرداروں میں ضبط نفس اور خود پر قابو رکھنے کی صلاحیت کی کمی بھی ظاہر ہوتی ہے، جو ان کے لیے کسی صورت سود مند نہیں ہے۔ ظاہر ہے، تشدد سے گریز اور خود کو قابو میں رکھنے کے نتائج بہادری اور شجاعت کے پیمانوں پر پورے نہیں اترتے لیکن اس کا فائدہ دوررس ہوتا ہے۔ اگر کوئی سردار یا جاگیردار اپنے آپ پر قابو رکھنا نہ جانتا ہو یا ہر معاملے میں تشدد کا سہارا لے تو نتائج اس کی اپنی حیثیت، خاندان اور برادری کی عزت اور نیک نامی کے لیے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ریاست بھی ایسوں کو سبق سکھانا جانتی ہے۔
پولیس اور عدالتوں کی حالت کا جو نقشہ اب تک کھینچا گیا ہے، یہی صورتحال بھارت کے تقریباً حصوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ بلکہ وہاں تو ذات پات کی تقسیم کی وجہ سے تو پولیس سے متعلق حالات اور بھی بدتر ہیں۔ یہی بات مقامی رسوم اور رواج کے اطلاق بارے بھی صادق آتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب میں (سوائے شریعت کے) ہر نکتے کو نہایت آسانی کے ساتھ 'پاکستانی'، 'بھارتی' اور 'جنوب ایشیائی' لبادہ اوڑھا سکتا ہوں اور یہ واقعاتی شواہد کی روشنی میں غلط بھی نہیں ہو گا۔ 
بھارتی آبادی کے ایک بڑے حصے کے لیے اس طرح کے حالات خوفناک نتائج برآمد کرتے رہتے ہیں اور اس خطے سے متعلق انہی حقائق کا نتیجہ ہے کہ بھارت کے دیہی علاقوں میں نچلی ذات کی آبادیوں اور قبائلی مزارعین کے یہاں ماؤ باغیوں کی تحریک خاصی تیزی سے مقبول ہوئی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارتی ریاست مجموعی طور پر حالیہ دور میں معاشی ترقی کی دوڑ میں خاصی آگے نکل چکی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے معاشروں میں فرق یہ ہے کہ بھارت میں عوام کے پاس ثقافتی لحاظ سے جدید ریاست اور عدالتی نظام کا متبادل نہیں ہے  جو موجودہ ریاستی ڈھانچے کو تہہ تیغ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ پاکستان میں، حالات دوسرے ہیں۔ آبادی کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ اگر جدید ریاست کے تصورات اور اسی جدید ریاست کے عدالتی نظام کو ترک بھی کر دیا جائے تو اسلام کا صدیوں پرانا طریق اور آج کے دور کا اجتہاد و قیاس پر مبنی شرعی نظام متبادل کے طور پر موجود ہے۔ اسی لیے شریعت اور شریعت کے مطابق زندگی اور معاشرے کا ہر ہر پہلو، اس کتاب کے اگلے باب کا موضوع بھی ہے۔


سرورق: ضلع سوات کے علاقے مٹہ میں طالبان کا مرکز / روزنامہ ڈان / 2007ء

  اگلا باب:  مذہب 

اب تک شایع ہونے والے تمام حصے یہاں کلک کر کے ملاحظہ کریں


2007ء کے اواخر تک ایسا لگتا تھا کہ پاکستانی عدلیہ کی اشرافیہ اور عوام کے بیچ بالآخر ایک پل بننے جا رہا ہے۔ عدلیہ کے لیے یہ عوامی حمایت آخر کار ملک میں روشن خیالی کی لہر بن کر ابھرے گی۔ یہی نہیں، عدلیہ کو بھی آخر کار ایک ایسا سنہری موقع مل گیا ہے کہ وہ اپنی ہئیت میں بنیادی تبدیلی کی مدد سے بتدریج ارتقائی عمل میں داخل ہو سکتی ہے۔ یہ سنہرا تصور وکلاء تحریک کی بنیادوں میں جڑا ہوا تھا۔ اس تحریک نے صدر مشرف کی حکومت گرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بعد اس کے، صدر زرداری کی حکومت کو بھی وکلاء تحریک سے اسی طرح کے خطرات کا سامنا تھا۔
وکلاء تحریک کی ابتداء 2007ء کے اوائل میں ہوئی۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتحار چوہدری نے پہلی بار صدر مشرف کے اختیارات اور طاقت پر قدغن لگانا شروع کیا۔ اس سلسلے میں پاکستانی شہریوں کی امریکیوں کے ہاتھ 'گمشدگی' پر بھی سوال اٹھانے شروع کر دیے۔ تس پر مشرف نے بدعنوانی کو وجہ بنا کر چیف جسٹس کو عہدے سے معزول کر دیا۔ صدر مملکت کے ہاتھوں چیف جسٹس کی اس طور معزولی کے نتیجے میں ملک بھر کے وکلاء نے صدر کے خلاف تحریک شروع کر دی۔ ان کی حمایت میں عوام کی کثیر تعداد بھی سڑکوں پر نکل آئی۔ صدر مشرف کے مستعفیٰ ہونے کے بعد، وکلاء کی یہ تحریک صدر زرداری کے خلاف بھی چھوٹے پیمانے پر جاری تھی۔



اس تحریک کی بازگشت مغربی میڈیا میں بھی سنائی دی۔ نیو یارک ٹائمز نے وکلاء تحریک کو 'حالیہ تاریخ میں اسلامی دنیا میں لبرل حلقوں اور جمہوری طاقتوں کی سب سے موثر اور متعاقب تحریک' قرار دیا۔ پاکستان کے لبرل حلقوں نے بھی پہلے پہل اس تحریک کو ملکی تاریخ میں ایک ایک اہم سنگ میل ہی سمجھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کی پڑھی لکھی مڈل کلاس بھی ایک سیاسی قوت بن کر بنیادی حقوق کی علمبردار اور پسی ہوئی عوام کی آواز بن کر ابھرتی ہوئی محسوس ہوئی۔
یہ عین ممکن ہے کہ طویل مدت میں وکلاء تحریک پاکستانی تاریخ میں نئے اور بہتر دور کی ابتداء، ایک سنگ میل کی حیثیت سے یاد رکھی جائے گی۔ 2010ء میں بہرحال حالات یہ تھے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا، دونوں کے تجزیوں کے مطابق یہ تحریک کئی اہم نکات اور پہلوؤں کو نظرانداز کر کے تقریباً ختم ہونے کے قریب تھی۔ اس میں سب سے اول تو یہ تھا کہ تاریخی تناظر میں دیکھا جائے تو پاکستان میں قانون کی مثال اس مرغی کی مانند ہے جس کے بارے پشتو میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ، 'مرغی اسی کی ہے جس نے پہلے پکڑ لی!'
طاقت اور قانون بارے یہ کہاوت 1990ء کی دہائی میں 'جمہوری دور' بارے بالکل فٹ بیٹھتی ہے۔ 1993ء میں نئی سیاسی طاقتوں کے ابھرنے اور سپریم کورٹ کی خودمختاری اور واضح طور پر نواز شریف کی جانب جھکاؤ سے خوفزدہ ہو کر پیپلز پارٹی کی حکومت نے سپریم کورٹ اور پنجاب کی ہائی کورٹ کے سارے ججوں کو ہٹا کر اپنے نامزد کردہ جج تعینات کر دیے۔ اس عمل کا نتیجہ عدلیہ اور انتظامیہ کے بیچ دور باشی کی صورت نکلا۔ حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات ماننے اور وکلاء نے پیپلز پارٹی کے تعینات کردہ ججوں کے سامنے پیش ہونے سے انکار کر دیا۔ عدلیہ کا پورا نظام جام ہو کر رہ گیا تھا۔
اس کے بعد 1997ء سے 1999ء کے دوران نواز شریف کے دور حکومت میں اس سے بھی بدتر صورتحال پیدا ہوئی۔ نواز حکومت نے پیپلز پارٹی سے بھی دو قدم آگے نکل کر عدلیہ پر قدغن لگانے کی کوشش کی۔ ہوا یوں کہ سپریم کورٹ نے نواز حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے ایک قانون کو چیلنج کر دیا۔ اس قانون کے تحت پولیس کو ماورائے عدالت قتل پر مطلق امان اور عفو عام مل گیا تھا۔ عدالت کے اس اقدام پر نواز شریف نے عدلیہ کے خلاف تند خو مہم کا آغاز کر دیا جس کے دوران مسلم لیگ کی قومی قیادت، کارکنوں کے ہمراہ سپریم کورٹ کی عمارت پر چڑھ دوڑی تھی۔ 1997ء کے اواخر تک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اس وقت کے صدر فاروق لغاری کے ہمراہ اپنے عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ صدر فاروق لغاری عدلیہ کی آزادی کے حامی تھے۔
نوے کی دہائی میں عدلیہ کے خلاف دونوں ہی قومی جماعتوں کی مہمات کے بعد 2007ء میں پاکستانی اور مغربی میڈیا کے چیدہ تبصرہ نگاروں کے لیے مشرف حکومت کا عدالت عظمیٰ کے ساتھ ٹکراؤ سمیٹ کر بیان کرنا قدرے عجیب صورتحال بن چکا تھا۔ مزید یہ کہ وکلاء تحریک نے تو گویا رنگ میں بھنگ ڈال دیا کیونکہ عدلیہ کے حق میں جاری اس تحریک کو دونوں ہی جماعتوں یعنی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔ اسی سبب، محسوس ہوا کہ وکلاء کی یہ تحریک دراصل جمہوریت کی واقعی بحالی کی طرف ایک اہم قدم بن سکتی ہے۔ ایسا لگا کہ صدر مشرف نے 'آمریت' کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدلیہ پر جو قدغن لگایا ہے، اس کے خلاف سیاسی اور عوامی حلقے یک جان ہو کر آن کھڑے ہوئے ہیں اور یہ کسی بھی مرحلے پر ملک میں جانی پہچانی اقتدار اور طاقت کے حصول کی جنگ محسوس نہیں ہوئی۔
پاکستان میں ہر فوجی اور سویلین حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جب بھی کبھی اس عمل میں ناکام ہوئے یا عدلیہ نے جوابی آنکھیں دکھائیں تو تقریباً سب حکمرانوں نے ہمیشہ ہی عدلیہ کو غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات سے دھمکانے کی کوشش کی ہے۔ 2007ء سے 2009ء تک جاری رہی عدلیہ کی خود مختاری کا دفاع کرنے والی اس تحریک سے اس کے حمایتیوں نے کافی زیادہ امیدیں باندھ لی تھیں۔ ان کا خیال یہ تھا کہ یہ ایک نئے دور اور ملک میں اساسی تبدیلی کا آغاز ہے۔ تاہم، مسئلہ یہ ہے کہ 2009ء تک عدلیہ اور وکلاء کسی حد تک اس تحریک کے سیاسی حامیوں کے بیچ بٹ چکے تھے۔ عدلیہ کا پلڑا نواز شریف کی جانب جھکا ہوا تھا اور وکلاء کے دھڑے مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مخالفین کے حامی بن چکے تھے۔
اس سیاسی بھیڑ چال کا نتیجہ یہ نکلا سپریم کورٹ نے قومی مفاہمتی آرڈیننس کو معطل کر دیا اور پیپلز پارٹی کے وزراء کے خلاف بدعنوانی کے تحت قائم کیے گئے مقدمات کو دوبارہ کھول دیا۔ اس اقدام پر عدلیہ کو ملک کے لبرل حلقوں، بالخصوص صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یاد رہے، یہ لبرل صحافی اور تجزیہ کار اس سے قبل مشرف دور میں عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری کے حق میں رونا روتے اور اس بارے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے قریبی حلقے جو عام طور پر لبرل واقع ہوئے ہیں، انہوں نے ملک میں عدلیہ اور فوجی گٹھ جوڑ کی سازشوں کا واویلا مچا دیا۔ یہی نہیں بلکہ ان حلقوں نے عدلیہ اور قومی میڈیا کو دوبارہ سے 'سدھانے' کی ضرورت پر بھی زور دینا شروع کر دیا۔
جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے، نواز شریف نے 1997ء میں اپنے دور حکومت کے دوران اس وقت کے چیف جسٹس کو غیر آئینی اور پرتشدد طریقوں سے اپنے عہدے سے الگ کیا تھا۔ غالباً اس کے بعد پیش آنے والے قومی معاملات کا نتیجہ ہے کہ نوازشریف کا رویہ اب یکسر بدل چکا ہے یا شاید اب بھی ویسے کا ویسا ہی ہے۔ اگرچہ نواز شریف اس وقت (2010ء میں) عدلیہ کے سیاسی حمایتی ہیں لیکن یہ عین ممکن ہے کہ اگر وہ دوبارہ اقتدار میں آئے تو سپریم کورٹ ان کے خلاف بھی بدعنوانی، غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کا پنڈورا باکس پھر سے کھول دے۔۔۔ یا شاید ایسا نہ کرے۔ بات یہ ہے کہ وکلاء تحریک کے بعد عدلیہ کچھ بھی کر گزرنے یا کچھ بھی نہ کرنے میں خود مختار ہو چکی ہے۔ ریاست کے اس ستون کے حوالے سے ممکنات کا دائرہ خاصا وسیع ہو چکا ہے۔ قصہ مختصر، وکلاء تحریک عدلیہ کی آزادی کے حوالے سے امید پیدا کرنے میں تو کامیاب رہی ہے لیکن اس ضمن میں کوئی بھی شے یقینی نہیں بنا پائی۔
وکلاء تحریک کو اگر ترقی پسند قوتوں کی سوچ سمجھ بھی لیا جائے تو اس کی کامیابی کے لیے اہلیت پھر بھی ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ نامور لبرل وکلاء جیسے کراچی میں منیر ملک اور لطیف آفریدی وغیرہ اس تحریک کے راہبروں میں شامل تھے تاہم مقامی سطح پر اس تحریک کی قیادت، رینک اور فائل وغیرہ وکلاء کے سخت قدامت پسند طبقے کے ہاتھ میں تھی۔ یہ قدامت پسند طبقہ مشرف کے امریکی اتحاد میں شامل ہونے کے فیصلے اور بھارت کے ساتھ مفاہمتی ایجنڈے کے سخت خلاف رہا ہے۔ جیسے، محمود اشرف خان نے بتایا:
'میں بھی تحریک طالبان کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہوں۔ طالبان نے افغانستان میں لوگوں کی خواہش کے عین مطابق امن اور انصاف قائم کیا۔۔۔ پاکستان میں بھی طالبان نے شریعت نافذ کروائی اور انہوں نے اغواء، منشیات کی سمگلنگ اور ایسے ہی دوسرے جرائم پر سخت سزائیں دیں۔ طالبان ہمیشہ سے ہی پاکستان کے وفادار رہے ہیں اور یہ دہشت گرد حملے ان کا کام نہیں ہے۔۔۔ اگر وہ ایسا کر بھی رہے ہیں تو یہ حکومت کی اپنی غلطی ہے۔ یہ حکومتی زیادتیوں۔۔۔ جیسے لال مسجد میں قتل عام کا ردعمل ہے۔ اگر آپ کے خاندان کے لوگ اور ساتھی قتل کر دیے جائیں اور ملک کا عدالتی نظام آپ کو انصاف بھی نہ دلوا سکے تو پھر آپ کیا کریں گے؟ آپ مڑ کر وار نہیں کریں گے؟ لال مسجد میں ہزاروں بے گناہ عورتوں کا قتل عام ہوا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ آپریشن اور دھماکے وغیرہ اصل میں یہودیوں اور عیسائیوں نے کروائے ہیں تا کہ پاکستان میں خانہ جنگی پھیل جائے۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ طالبان لڑکیوں کے سکول جلا دیتے ہیں لیکن ایسے واقعات میں طالبان کا کم ہی ہاتھ نظر آیا ہے۔ اس طرح کے کام اکثر بیرونی طاقتیں کرواتی ہیں تا کہ طالبان کو بدنام کیا جا سکے۔ افغانستان میں بھارت کی درجن سے زیادہ کونسلیٹ دفتر ہیں۔۔۔ ان کا کیا کام ہے؟ وہ کرزئی حکومت کی امداد نہیں کر رہے بلکہ طالبان کے اندر دھڑوں کو شہ دے رہے ہیں تا کہ پاکستان کو تباہ کیا جا سکے۔۔۔'
چنانچہ، اگر پاکستانی عدالتیں شدت پسندوں اور مشتبہ دہشت گردوں کو بالآخر چھوٹ دینے پر مجبور ہو جاتی ہیں تو اس کی وجہ صرف ثبوتوں کی کمی یا شدت پسندوں اور حکومت کی جانب سے ڈرانا اور دھمکانا نہیں ہے۔ ملک کی عدلیہ میں، ججوں اور وکلاء میں بھی عام طور پر شدت پسند حلقوں اور دہشت گرد عناصر کے لیے کہیں نہ کہیں ہمدردی پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جنوری 2011ء میں پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے پولیس ہی سے تعلق رکھنے والے محافظ کے ہاتھوں قتل اور اس کے بعد عدالتی احاطوں اور کمروں میں مقدمے کی کاروائی کے دوران پیش آنے والے واقعات ہیں۔
میرے لیے اس موقع پر یہ کہنا انتہائی ضروری ہے کہ چاہے قدامت پسند وکلاء جیسے محمود اشرف خان ہوں یا وکلاء میں لبرل حلقوں کے نمائندہ جیسے منیر ملک وغیرہ ہوں۔۔۔ میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ کئی معاملات پر گفتگو کے دوران یہ دونوں ہی منطق، معقولیت اور مکالمے میں دلیل اور ثبوت کے اصولوں سے پھر جاتے ہیں۔ گویا انہیں اس کا ادراک ہی نہیں ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ یہ اکثر معقولیت اور منطق سے بیر رکھتے ہیں۔ ان کا معاملہ بھی پاکستان کی تقریباً آبادی جیسا ہی ہے لیکن بات یہ ہے کہ یہ دونوں پڑھے لکھے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں ہی سینئیر وکیل ہیں۔ منیر ملک کو بھی یہی یقین تھا کہ امریکہ، بھارت، اسرائیل اور دوسرے ممالک مل کر پاکستانی طالبان کو شہ دیتے ہیں اور وہی اس ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر کے ذمہ دار ہیں۔ تاہم، منیر ملک اپنے اس دعویٰ اور قطعی یقین کی وجوہات بیان کرنے سے قاصر تھے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ یہ سب نہایت اہم ہے۔ بلکہ پاکستان میں ترقی کے لیے اس طرح کی تحاریک توانائی کا کام کر سکتی ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وکلاء کی یہ تحریک واقعی عوامی سطح پر اصلاحات کی ایک مہم ہے یا پھر یہ بھی وہی پرانی گھسی پٹی روایت کی ایک نئی کڑی ہے جس میں پوری قوم کسی جادو کی چھڑی کی تلاش میں نکلی ہوئی ہے۔ ایک ایسی روایت جو کوئی سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی بجائے بیٹھے بٹھائے، معجزانہ طور پر اس ملک کو درپیش مسائل کا حل نکال کر دے اور تبدیلی کا مظہر بنے؟ نیو یارک ٹائمز کے جس تبصرے کا حوالہ اوپر دیا گیا تھا، اسی آرٹیکل میں جیمز تارب نے ایک احتجاجی مظاہرے میں شامل وکلاء کے بارے یہ بھی لکھا تھا کہ وہ اپنے مقاصد کے بارے 'بظاہر بدحواسی اور خلل' کا شکار ہیں۔ اس مظاہرے کے دوران بلند کیے جانے والے نعرے اور جگہ جگہ آویزاں بینروں کو دیکھ کر بھی یہی گماں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ملتان کی بار ایسوسی ایشن کے دفتر پر ایک بڑا بینر آویزاں تھا، جس پر لکھا تھا۔۔۔ 'چیف جسٹس کی بحال کراؤ، پاکستان کو نجات دلاؤ!'۔ اسی طرح ایک دوسرے بینر پر جلی حروف میں تحریر تھا، 'آزاد عدلیہ کا ایک ہی نشان۔۔۔ مسائل سے چھٹکارا، امن اور امان!'۔
وکلاء تحریک سے متعلق 2010ء میں مجموعی صورتحال زیادہ اچھی نہیں تھی۔ بلکہ اس بارے حوصلہ شکنی پائی جاتی تھی۔ سادہ الفاظ میں یوں سمجھیں کہ عام پاکستانیوں کی اکثریت نے وکلاء تحریک کا ساتھ ان کے ایجنڈے کی وجہ سے نہیں دیا تھا بلکہ اس وقت ملک میں یہ تحریک واحد قوت نظر آ رہی تھی جو عوام کی مشرف حکومت سے نفرت کی ترجمان تھی۔ بعد ازاں مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد عوام کی یہ نفرت صدر زرداری کی حکومت کے لیے مختص ہو گئی۔ عوام کسی بھی طرح سے وکلاء کو بحیثیت ایک کلاس، پسند نہیں کرتے اور ریاست کے عدالتی نظام سے بدستور جوں کے توں نالاں ہیں۔
مزید براں یہ کہ عوام نے درحقیقت وکلاء تحریک کی روشن خیال اور لبرل ایجنڈے پر حمایت نہیں کی کیونکہ اس تحریک کا ایسا کوئی ایجنڈا کبھی رہا ہی نہیں ہے۔ وکلاء کا اصل مقصد تو عدلیہ کی آزادی، طاقت کا حصول اور عزت کمانا تھا۔ یہ تینوں ہی مقاصد اصولی طور پر انتہائی دلکش ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاستی عدلیہ ایک انتہائی کمزور اور نقائص سے بھرپور ریاستی ادارہ ہے۔ یہی نہیں بلکہ عوام کی اکثریت اس کی کارکردگی سے سخت متنفر ہے۔
بدقسمتی سے اس تحریک میں شامل افراد جیسے اشرف خان وغیرہ انفرادی سطح پر اپنے تئیں عدلیہ میں اصلاحات سے متعلق کئی بیش قیمت تجاویز پیش کرتے رہتے ہیں لیکن مجموعی طور پر وکلاء تحریک عدلیہ اور وکلاء کے تنظیمی ڈھانچوں میں ان اصلاحات بارے سنجیدگی پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اگر وکلاء تحریک طویل مدت میں عوام کی حمایت برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اس بارے تحریک کی قیادت اور عدلیہ کو سنجیدگی سے سوچنے کی سخت ضرورت ہے لیکن بات یہ ہے کہ اس طرح کی اصلاحات خود عدلیہ اور وکلاء کے کئی دھڑوں کے لیے غیر مانوس اور بے چینی کا باعث ہو سکتی ہیں۔ اس تحریک کی قیادت اور کارکنان سے میری جب بھی کبھی گفتگو رہی ہے، اس بارے اٹھائے گئے سوالات پر ان کا ردعمل ایسا تھا جیسے وہ اس نکتے کو سمجھنے سے قطعی قاصر تھے۔ ایسی صورتحال میں قیادت اور کارکنان کو تحریک بارے عدلیہ اور وکلاء کے تنظیمی ڈھانچوں میں اصلاحی ایجنڈے کی اہمیت کا اندازہ ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔ ان کے لیے یہ تحریک کی بقاء اور مثالیت کے لیے سرے سے کوئی شے ہی نہیں تھی۔
چیف جسٹس افتخار چوہدری نے اپنے دور میں، بالخصوص بحالی کے بعد تو 'سو موٹو نوٹس' یعنی از خود اقدامات کا انبار لگا دیا ہے۔ وہ گاہے بگاہے انفرادی اور نچلی سطح کے معاملات اور بگاڑ بارے از خود اقدامات کے ذریعے خاصے متفکر نظر آتے رہے ہیں۔ انہوں نے انہی اقدامات کے تحت پولیس افسران، بیوروکریٹوں اور محکماتی اور ادارہ جاتی حکام کو عدالت میں بلوا کر اور ان کی عزت نفس مجروح کر کے عوام میں خاصی مقبولیت حاصل کی ہے۔ علاوہ ازیں وہ اپنے تئیں قانون کی بالادستی کے بھی حامی نظر آتے ہیں لیکن یہ سنجیدگی صرف ان قوانین سے متعلق ہے جو ان کی اپنی سوچ اور پسند کا مظہر ہیں۔ چیف جسٹس کے کام کرنے کا ذاتی طریقہ کار ہے جو بلا شک و شبہ آمرانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح کا آمرانہ رویہ وکلاء تحریک کی قیادت کے وہ سربراہان جن سے میری گفتگو رہی، ان کے طرز عمل اور سوچ میں بھی دیکھنے میں آیا تھا اور اس میں لبرل یا قدامت پسند کی کوئی تفریق نہیں تھی۔



یہاں ایک دفعہ پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ تحریک واقعی نظام میں تبدیلی کی کوشش تھی یا افتخار چوہدری (اور ممکنہ طور پر آئندہ آنے والے چیف جسٹس صاحبان) بھی اس تحریک کے ثمرات کے نتیجے میں وہی کردار ادا کر رہے ہیں جو عام طور پر سیاستدان اور ان کے نمائندگان پاکستان کے کسی بھی سیاسی دفتر میں کھیل کی صورت کھیلتے آ رہے ہیں۔ یعنی، سیاستدان عام آدمی کی کسی بھی انتظامی مسئلے میں مدد کرتے ہیں اورپھر اس مدد کے عوض سیاسی حمایت بٹورتے رہتے ہیں۔ مزید براں یہ ہے کہ 2009ء سے چیف جسٹس افتخار چوہدری اور اعلیٰ عدلیہ کے دوسرے جج صاحبان از خود اقدامات اور انتظامی احکامات کا جس طور اور جس تواتر سے استعمال کرنا شروع ہوئے تھے، وہ ان کی آئینی اور قانونی حیثیت اور اہلیت سے کہیں باہر تھا۔ مثال کے طور پر ملک کی عدالت عظمیٰ نے حکومت کو بازاروں میں بنیادی اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں کمی لانے کا بھی حکم دیا تھا۔ اگر یہ رجحان اسی طور جاری رہا تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ عدالتیں ہمیشہ ہی ہر حکومت کے متصادم رہیں گی اور اس ضمن میں یہ بات یاد رہے کہ ہم قطعی طور پر نہیں جانتے کہ مستقبل میں عوامی حمایت اور ہمدردیاں کس کے ساتھ رہیں گی؟
وکلاء تحریک کے بعد عدلیہ میں نچلی سطح پر وکلاء اور وکلاء کے دھڑوں نے اپنا رنگ جمانا شروع کر دیا ہے۔ یہ گاہے بگاہے اپنی رائے اور طاقت کا واقعی اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ بلکہ رائے کے اس اظہار پر بالجبر تھونپنے کا گمان ہوتا ہے۔ وکلاء تحریک کے دوران، وکیل مخالفین کو پیٹتے اور پولیس کے ساتھ گتھم گتھا نظر آئے تھے لیکن اب بھی وکلاء تنظیموں اور انفرادی سطح پر وکیلوں کا یہی طور جاری ہے۔ چیف جسٹس کی بحالی اور مشرف کے استعفیٰ نے گویا مہمیز کا کام دیا ہے اور وکلاء اسے اپنی فتح کے علاوہ انفرادی سطح پر، یہاں تک کہ مقدمات کی کاروائی کے دوران بھی اس تشدد کو جاری رکھنے کا لائسنس سمجھتے ہیں۔ اگست 2009ء میں جب میں لاہور میں ہی تھا۔۔۔ پتہ چلا کہ وکلاء کے ایک گروہ نے کسی پولیس افسر کے ساتھ مار پیٹ کی اور اسے شدید زخمی کر دیا۔ اس تشدد کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس پولیس افسر نے عدالت میں ان وکلاء کے موکل کے خلاف عدالت میں گواہی دی تھی۔ جب یہ خبر ٹی وی پر نشر ہوئی تو اس واقعہ کے اگلے ہی دن وکلاء نے اس خبر کے پیچھے اس ٹی وی چینل کے رپورٹر اور کیمرہ مین کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا اور ساز و سامان توڑ پھوڑ دیا۔ اسی طرح ملک بھر سے جج حضرات کی جانب سے توہین عدالت کے قانون کے استعمال میں اضافہ ہو گیا ہے اور اسی قانون کی مدد سے پریس اور عدلیہ کے نقادوں کا منہ بند رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی قانون کے تحت کئی اہم سرکاری اور غیر سرکاری عہدے داروں کو عدالتوں میں ججوں کے سامنے نہ صرف ہزیمت اٹھانی پڑی ہے بلکہ ان کی پیشہ ورانہ ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے میرے ایک دوست نے اس سارے معاملے کو خشک مزاجی سے کچھ یوں سمیٹا تھا،
'تو آپ کیا توقع رکھتے ہیں؟ فوج کے پاس وردی اور بندوق ہے، جس کے بل بوتے پر وہ لوگوں کو پیٹتے ہیں۔ پولیس کے پاس بھی ہے۔ یہ وکیل بھی کالا کوٹ پہن کر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس ملک میں جس کے ہاتھ طاقت اور اختیار لگ جائے تو وہ یہی کرتا پھرتا ہے۔۔۔'

سرورق: اسلام آباد میں معزول چیف جسٹس کی رہائشگاہ کے باہر احتجاج کے دوران ایک وکیل، پولیس کی شیلنگ سے بھاگتے ہوئے / ٹائم / 2007ء

  اگلا باب:  شریعت

اب تک شایع ہونے والے تمام حصے یہاں کلک کر کے ملاحظہ کریں


پاکستان میں وہ ملزمان جو پولیس کے روایتی تفتیشی طریقوں سے جان بچا، زندہ نکل آئیں تو عدالتوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان پر خدا ہی رحم کرے۔ پنجاب میں کسی نے کہاوت سنائی تھی کہ 'خدا کسی دشمن کو بھی بیماری اور عدالت میں مقدمہ نہ دکھائے۔۔۔' اگر عدالتی نظام میں رشوت خوری اور بدعنوانی ایک مسئلہ ہے تو انصاف میں تعطل اور تاخیر کہیں بڑی بلا ہے۔ اگر دل کو لگتی کہوں تو پاکستانی (اور بھارتی) کے ہر عدالتی کمرے۔۔۔ جج اور وکلاء کی پیشانی پر مشہور کلاسیکی قانونی کہاوت کندہ کروا دینی چاہیے کہ، 'انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار کے مترادف ہے'۔ مجھے بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ کی ضلعی عدالتیں دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہاں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں مقدمات کی شنوائی ہوتی ہے اور ہزاروں لوگ طرح طرح کے مقدمات کی پیروی کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔ اس روز جتنے افراد کے ساتھ بات چیت ہوئی۔۔۔ اکثریت کے مقدمات کم از کم پچھلے پانچ برسوں سے التواء کا شکار تھے۔ مزید یہ کہ ان میں سے ہر شخص مقدمے کی پیروی اور رشوت کی صورت میں اب تک اوسطاً دو لاکھ روپے خرچ کر چکا تھا۔ پاکستان میں ایک غریب آدمی کے لیے دو لاکھ روپے خاصی بڑی رقم ہے۔
یہ مسائل صرف عدالت میں زیر التواء مقدمات تک محدود نہیں ہیں۔ وہاں موجود ایک بوڑھے شخص سے بھی ملاقات رہی جو گزشتہ چھ روز سے مسلسل کچہری کا چکر لگا رہا تھا۔ اب تک ہزاروں روپے کی لیگل فیس اور رشوت بھرنے کے باوجود جائیداد کا انتقال ممکن نہیں ہو سکا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں لوگوں کی اکثریت ، بالخصوص دیہی علاقوں میں مشکلات کی وجہ سے جائیداد کی منتقلی اور مال سے متعلق معاملات کو غیر رسمی طریقے سے آپس ہی میں طے کرتے ہیں۔ مزید براں یہ کہ اگر ان معاملات میں کل کلاں کوئی مسئلہ پیدا ہو جائے، تنازعہ جنم لے یا لوگوں کے بیچ آپسی چپقلش نکل آئے تو اس سے نبٹنے کے لیے سرکاری سطح پر کوئی ریکارڈ اور نہ ہی ثبوت موجود ہوتا ہے۔
جنوبی ایشیاء میں مقدمات کی غیر ضروری طوالت اور عدالتوں میں اس بارے وقت کا بے انتہاء ضیاع، دراصل صرف بدعنوانی کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ اس میں کئی دوسرے عوامل بھی پائے جاتے ہیں۔ ان عوامل میں مقامی عدالتوں پر دباؤ، اثر و رسوخ، ڈراوے اور دھمکانے کے حربے، عملے کی کمی، نظام پر کار سرکار کا بے پناہ بوجھ اور وکلاء کی کلبی چالیں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، سرفہرست پولیس اور عدالتی عملے بشمول ججوں کی سستی، کاہلی اور کام چوری پیش پیش ہے۔



اب ظاہر ہے، جب یہ عمل اس قدر سست اور التواء کا شکار ہو گا۔۔۔ تو عدالتوں پر بوجھ بڑھتا جائے گا اورانصاف کی فراہمی مزید سست ہو گی۔ یعنی، یہ ایک ایسا گھن چکر بن جاتا ہے جس کا نتیجہ نظام کی مشینری کے جام ہونے کی صورت میں ہی نکل سکتا ہے۔ اس سے نبٹنے کے لیے دو ہی صورتیں ہیں۔ اس کے لیے لاطینی زبان کی دو قانونی اصطلاحات، جن کا اردو میں ترجمہ 'بدی کی جراحی' اور 'ابدی حرکت پذیری' بنتا ہے۔ ان دو اصطلاحوں کو جوڑ کر پڑھا جائے تو جنوب ایشیاء کے عدالتی نظام کے مسائل کی جڑ اور حل کی صورت نکل آتی ہے۔ جنوبی ایشیاء میں یہ دونوں اصطلاحات عملی طور پر وکلاء میں عام اور خاصی مقبول ہیں۔ مئی 2009ء کے اعداد و شمار کے مطابق، صرف کراچی کی ضلعی عدالتوں میں ایک لاکھ سے زائد مقدمات زیر التواء تھے ، جن کی شنوائی کے لیے 110 جج صاحبان تعینات کیے گئے تھے۔ یاد رہے، ایک اندازے کے مطابق تب اس شہر کی آبادی ایک کروڑ ستر لاکھ تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک جج لیے دن میں قریباً سو مقدمات سننے لازم تھے۔ ہر روز بارہ سو کے قریب ملزمان کو کراچی کی ضلعی عدالتوں میں پیش کیا جانا چاہیے تھا لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ کراچی پولیس کے پاس عدالتوں میں ہر روز صرف 500 ملزمان کو پیش کرنے کی سہولیات دستیاب ہیں۔ اس سے مراد قیدیوں کو جیل سے ڈھونے کے لیے گاڑیاں اور عدالت کے احاطے میں حوالات اور دوسرے انتظامات ہیں۔
پاکستان میں بھی مقدمات سے متعلق کاروائی میں تعطل اور التواء سے نبٹنے کے لیے غالباً وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے جو انیسویں صدی کے اوائل میں انگریزی عدالتی نظام نے کم و بیش اسی طرح کی صورتحال سے دوچار ہونے کے بعد کیا تھا۔ سب سے پہلے تو مقدمات میں چھانٹی کی جائے اور واقعی مقدمات کو علیحدہ کر کے اہم ترین زمرے میں شمار کر لیا جائے۔ مزید چھانٹی، مقدمے کی نوعیت اور اہمیت کے تحت کی جائے۔ لیکن ایسا کرنا خاصا مشکل ہو گا کیونکہ اس ترتیب کے کئی پہلو نکلتے ہیں۔ ان میں سب سے اول اور بڑی وجہ تو یہ ہے کہ جائز اور ناجائز مقدمات میں کوئی فرق نہیں ہے اور مقدمات کی کثیر تعداد آپس میں گڈ مڈ ہے۔ پھر مقدمات کے دوران پیشیوں کے لیے تاریخ کا نظام بڑا مسئلہ ہے۔ مقدمات کو التواء میں ڈالنے کے لیے کاروائی کو ملتوی کر دیا جاتا ہے۔ ایک ہی مقدمے میں درجن بھر سے زیادہ پیشیاں اور بار بار کاروائی کا ملتوی ہونا معمول کی بات ہے۔
کسی بھی مقدمے کی کاروائی کو ملتوی کرتے رہنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں ایک بڑی وجہ وکلاء سے متعلق ہے کہ یہ حضرات بغیر کسی واقعی وجہ کے التواء اور اگلی پیشی کی درخواست دے دیا کرتے ہیں۔ مقدمے کی کاروائی کو ملتوی کرنے کی کئی جائز وجوہات بھی ہوتی ہیں جیسے قیدیوں کو جیل سے عدالت میں پیش کرنے کے لیے سہولیات کا فقدان ہے۔ کئی دوسری وجوہات میں بدعنوانی، اثر و رسوخ، دھمکانے کے حربے، ذاتی دوستیاں اور حکام کی سستی اور کام چوری شامل ہے۔ ایک ریٹائرڈ جج نے مجھے بتایا:
' یہاں کسی بھی جج کے لیے وکلاء کے ساتھ سختی برت کر بیر پالنا سودمند نہیں ہوتا۔ ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں اور اس شعبے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے ہمارے بیچ خاندانی مراسم تک پیدا ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی جج وکلاء کے بیچ غیر مقبول ہو تو اس کے بارے ہوائیاں اور افواہیں پھیلا دی جاتی ہیں جو عدلیہ کے اعلیٰ حکام تک بھی پہنچتی ہیں۔ نتیجہ، اس جج کی ترقی رک جاتی ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس غیر مقبول جج پر بدعنوانی کے الزامات لگ جائیں اور بیچارے کی باقی ماندہ سروس کھٹائی میں پڑ جائے بلکہ کئی بار تو الٹا جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ چنانچہ زیادہ تر جج حضرات 'جیو اور جینے دو' کے اصول پر کاربند رہتے ہیں اور وکلاء کی جانب سے مقدمات میں حیلوں اور حربوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے ہی پڑتے ہیں۔ چاہے ان کے مطالبات جیسے کاروائی ملتوی کرنا، پیشی پر پیشی ڈالنا اور پیشی پر غیر حاضری وغیرہ ناجائز ہی کیوں نہ ہوں۔۔۔ خاطر میں لانا ہی پڑتا ہے۔ ویسے، یہ بھی درست ہے کہ پورا عدالتی سسٹم ہی مقدمات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اور اگر سب اپنے فرائض اچھی طرح ادا کرنا شروع بھی کر دیں۔۔۔ تو یہ مسئلہ پھر بھی جوں کا توں برقرار رہے گا۔'
اس نظام کی مفلوج زدہ حالت کی ذمہ داری عدالتی حکام اور پولیس کے بیچ تلخ تعلقات پر بھی عائد ہوتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ان دو دھڑوں کے بیچ دنیا میں ہر جگہ ہی کچھ نہ کچھ تناؤ رہتا ہی ہے لیکن پاکستان میں یہ اس سطح پر پہنچ چکا ہے کہ آگے چل کر ہم دیکھیں گے، تشدد پر منتج ہو سکتا ہے۔ اب تک یہ تو عیاں ہے کہ عدالتوں کے پاس مقدمات اور تفتیش سے متعلق پولیس کی اہلیت بارے شک و شبہ کی معقول وجوہات ہیں۔ دوسری جانب پولیس کو بھی گلہ رہتا ہے کہ نامی گرامی قاتلوں، دہشت گردوں اور کئی طرح کے جرائم پیشہ افراد ۔۔۔جن پر تفتیش کے دوران جرم ثابت ہو چکا تھا، عدالتوں سے بظاہر خوش نما بنیادوں پر چھوٹ مل جاتی ہے۔ اگر انہیں چھوٹ نہ بھی ملے، ان کے مقدمات طویل عرصہ تک زیر التواء رہتے ہیں اور کئی برس بعد بھی فیصلہ نہیں آتا۔
اس کا نتیجہ، جس بارے پولیس اہلکاروں نے بھی شکایت کی، 'اس ملک میں اگر آپ کسی واقعی طاقتور بدمعاش اور غنڈے سے نبٹنا چاہیں تو موقع پر گولی مار کر ختم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔' اسی شکایت کا نتیجہ ہے کہ پاکستانی اور بھارتی پولیس کا اپنا رنگ نکل آیا ہے۔ اب تو یہ صورتحال ہے کہ صوبائی حکومتیں بھی جرم کے خاتمے کے لیے ماورائے عدالت قتل کی ضرورت کو محسوس کرتی ہیں۔جنوبی ایشیاء میں پولیس مقابلے انصاف کا ایک نیا ستون بن کر ابھرے ہیں۔ وہ پولیس افسران جو اس معاملے میں سخت اور پیش قدم واقع ہوئے ہیں، سیاسی عوامی حلقوں میں ہیرو ٹھہرتے ہیں۔ عدالتوں کی جانب سے فیصلوں میں پس و پیش، بالخصوص اسلامی شدت پسندوں کے مقدمات میں اس بارے نااہلیت کا تباہ کن نتیجہ برآمد ہوا ہے۔ ان شدت پسند عناصر کو اگرچہ ریاست کے خلاف سازش اور نقصان کی بنیاد پر مقدمات کا سامنا ہوتا ہے لیکن پھر بھی یہ ثبوتوں کی عدم موجودگی کے سبب چھوٹ جاتے ہیں۔
اس ضمن میں مختاراں مائی کا مقدمہ خاصی معقول مثال ہے۔ اس سے پولیس، عدالتوں اور سیاسی نظام کے بیچ بدترین باہمی عمل و تفاعل کی شکل سامنے آتی ہے۔ مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا واقعہ 2002ء میں پیش آیا تھا۔ مختاراں مائی آٹھ سال گزرنے کے بعد، 2010ء میں بھی انصاف کی منتظر تھی۔ اگر قانونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ انتہائی سادہ مقدمہ ہے اور اس کا شور پوری دنیا میں سنا گیا تھا۔ بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور قومی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی نے 2008ء میں حکومت سنبھالنے کے بعد اس مقدمے کی پیروی اور حتمی اقدامات یقینی بنانے کا وعدہ بھی کیا تھا ۔لیکن 2010ء تک اس مقدمے کا کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ سکا تھا۔
عدالتی نظام کی نا اہلی اور اس سبب عوام کی اکثریت کا عدالتوں پر عدم اعتماد اور اس سے غیریت کا ایک پہلو انگریز دور سے ملتا ہے۔ یہ پورا نظام انگریزی زبان اور بالخصوص قانون کی لاطینی اصطلاحات میں چلایا جاتا ہے۔ عوام کے لیے یہ سب بیگانہ ہے۔ ان کی اس نظام سے روگردانی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ آبادی کا بڑا حصہ انگریزی زبان سمجھ ہی نہیں سکتا۔ یہ پہلو عوام کے ساتھ ساتھ عدالتی حکام اور اہلکاروں پر بھی صادق آتا ہے جو انگریزی سے بنیادی واقفیت رکھنے کے باوجود اس زبان کے پیچ و خم اور پیچیدگیوں سے نابلد ہیں۔ جس سے یقیناً اس پورے نظام کی نااہلیت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ عدالتی اہلکاروں کی کثیر تعداد اسی سبب اپنے فرائض درست طریقے سے سرانجام ہی نہیں دے پاتے۔
جنوری 2009ء میں، ملتان بار ایسوسی ایشن کے اس وقت صدر محمود اشرف خان سے ملاقات رہی۔ ان کے دفتر میں اس وقت انتہائی دلچسپ صورتحال پیدا ہو گئی جب انہوں نے کلرک کو انگریزی زبان میں نوٹس لکھوانے شروع کیے۔ کلرک، جسے عام طور پر منشی کہا جاتا ہے۔۔۔ ایک عمر رسیدہ شخص تھا جس کی داڑھی کے بالوں میں سفیدی پھر چکی تھی اور سر پر اون کی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ اس کے صرف دانت ہی نہیں بلکہ انگریزی پر عبور بھی جڑ چکا تھا اور اسی سبب وہ بیچ بیچ میں الفاظ کی ادائیگی کے دوران اڑ جاتا تھا۔
‘The Following prisoners are required to be implemented as respondents’، وکیل صاحب نے کہا۔
منشی نے پہلے یہ جملہ زیر لب دہرایا اور پھر لکھتے ہوئے اونچی آواز میں دوبارہ کچھ یوں دہرانے لگا، ‘The following prisons are retired to be….’
‘Required!’، وکیل صاحب نے تنک کر کہا،
‘Are required to be imp… imprem, indem….’
‘Implemented!’
ظاہر ہے، نوٹس لکھنے کا یہ کام اگر بار ایسوسی ایشن کے صدر صاحب خود کر لیتے تو کافی آسانی ہو جاتی لیکن ظاہر ہے، اس سے جنوبی ایشیاء کے بنیادی اور ہر سطح پر پھیلے ہوئے اس تصور کی نفی ہوتی جس کے تحت اشرافیہ کی اپنے ہاتھ سے کام کرنے کے نتیجے میں عزت کم ہو جاتی ہے۔ یہ تو خیر ایک منشی کا قصہ ہے ورنہ پاکستان میں وکلاء کی ایک کثیر تعداد کے ساتھ ملاقات رہی ہے۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ یہ وکلاء انگریزی ٰ قانون کی اعلیٰ ڈگریوں کا حامل ہونے کے باوجود نہ صرف انگریزی زبان درست بولنے سے قاصر ہیں بلکہ لکھنے میں تو بالکل ہی کورے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے پاکستانی وکیلوں کی اکثریت واقعی قانونی تربیت اور علم سے نابلد رہ جاتی ہے اور یہاں تک کہ بنیادی نکتوں کو بھی سمجھنے میں قاصر رہتی ہے۔ یہی اثر پھر عدالتوں میں پیش کیے جانے والے مقدمات میں بھی دیکھنے میں آتا ہے، جس کے لیے یہ وکلاء اور ان کے منشی کسی صورت بھی پوری تیاری نہیں کر پاتے اور قانونی نکتے واضح ہی نہیں کر سکتے۔ نتیجہ مقدمات کے التواء، بار بار پیشیوں، جرح میں جھول اور عدالتی فیصلوں میں کمزوری کی صورت سامنے آتا ہے۔ مخالف وکیل کے لیے کسی بھی مقدمے میں شہ مات دینا آسان ہو جاتا ہے اور سارا ملبہ آخر میں عام آدمی، جو اپنا مقدمہ ان عدالتوں میں لے کر آیا ہے، اسی پر گرتا ہے۔
عدالتوں میں جرح اور ثبوت، قومی زبان اردو یا علاقائی زبانوں میں پیش کیے جا سکتے ہیں لیکن ریکارڈ کے لیے ساری عدالتی کاروائی اور ثبوت انگریزی زبان میں ترجمہ کرنا لازم ہیں۔ 2009ء میں کراچی کی ضلعی عدالت میں کسی بچے کے اغواء کے ایک مقدمے کی کاروائی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ ایک عورت کا بیان ریکارڈ کیا جا رہا تھا۔ وہ خاتون اردو میں بیان ریکارڈ کروا رہی تھی جبکہ جج انتہائی بودی انگریزی میں اپنے کلرک کو اس کا بیان انگریزی میں ترجمہ کر کے عام خط تحریر میں لکھواتا جا رہا تھا۔ بیان تو ریکارڈ ہو گیا لیکن اس روز مقدمے کی کاروائی ملتوی کرنی پڑی کیونکہ مدعی کا وکیل حاضر نہیں ہو سکا تھا۔ بیان ریکارڈ کروانے کے دوران یک طرف تماشا جاری تھا اور اس عورت کو اپنی کہی بات دو یا اس سے زیادہ دفعہ دہرانی پڑتی اور پھر جج کو تین دفعہ اپنے کلرک کو انگریزی میں سمجھانی پڑتی۔ یہی نہیں بلکہ اس عمل کے دوران دوسرے فریق کے وکیل اور جج دیر تک، تقریباً ہر جملے پر ایک دوسرے کی انگریزی زبان میں غلطیوں کی تصحیح اور بیان کے انگریزی ترجمہ کی نوک پلک درست کرتے رہے۔ کسی بھی مقدمے کی کاروائی کے دوران وکلاء جج کے ساتھ انگریزی یا اردو میں بات کر سکتے ہیں لیکن عام طور پر وکلاء انگریزی میں اپنی کاروائی پوری کرتے ہیں اور جج انگریزی ہی میں فیصلہ تحریر کرتا ہے۔ چنانچہ، جب تک کوئی بھی مقدمے کے فریقین کے لیے کاروائی اور فیصلے کا ترجمہ نہ کر لے، اسے اپنے ساتھ ہو رہے عدالتی معاملات بارے سرے سے پتہ ہی نہیں چلتا۔
میں نے اپنے کام سے انتہائی عاجز آئی ہوئی لیکن خاصی پر فکر جج آمنہ ناصر انصاری سے اس پورے عدالتی نظام کو اردو زبان میں منتقل کرنے کے بارے پوچھا تو کہنے لگیں،
'اردو میں منتقل نہ کر پانے کی سب سے اول اور بڑی وجہ تو یہ ہے کہ قانونی کاروائی اور فیصلے ہمیشہ ہی سابقہ نظیر اور مثالوں پر چلتے ہیں۔ ہمارے ملک کی عدالتوں کا انگریز دور تک کا سارا ریکارڈ انگریزی زبان میں ہے۔ اگر ہم انگریزی کو ترک کر دیں تو ہمارے نئے فیصلوں کی بنیاد میں دم نہیں رہے گا۔ ہمیں اس کام کے لیے سارے نظام کو صفر کو سے شروع کرنا پڑے گا اور خدا جانے، یہ ہمیں کس ڈگر پر لے جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس ملک میں زبان بذات خود بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پنجاب میں زیادہ تر عدالتی کاروائی اردو زبان میں ہی ہوتی ہے لیکن ریکارڈ کے لیے انگریزی میں ترجمہ اور ساری دفتری اور عدالتی مکتوبات اور ابلاغ بھی انگریزی میں ہی ہونا لازم ہے۔ لیکن کراچی میں معاملہ یہ ہے کہ اگر ہم عدالتی کاروائی کو اردو زبان پر منتقل کر دیں تو سندھی ناراض ہو جائیں گے اور اگر سندھی زبان لاگو کریں تو دوسرے لسانی دھڑے شور مچا دیں گے۔'
ملک کی تمام عدالتیں جس بنیادی وجہ سے انگریزی زبان میں کاروائی چلانے پر مجبور ہیں، وہ کراچی کی ضلعی عدالتوں کے باہر زیبائش سے کندہ کیے ہوئے انگریزی کے تین حروف ہیں۔ یہ حروف، 'جی آر آئی' ہیں اور ان عدالتوں کے احاطے میں ایک بھی شخص ایسا نہیں تھا جو ان تین حروف کا مطلب بتا سکتا ہو۔ یہ اصل میں Georgius Rex Imperator کا مخفف ہے جس کا مطلب 'جارج پنجم، شاہ انگلینڈ و شاہ ہند' ہے۔
اس ضلعی عدالتوں کے احاطے کی پرانی تصاویر دیکھیں تو کافی عرصے تک یہ اس علاقے میں واحد پرشکوہ عمارت ہوا کرتی تھی جس کے باہر وسیع شاہراہ گزرتی تھی۔ آس پاس آبادی کا نام و نشان بھی نہ تھا۔ آج، اس پرشکوہ عمارت کا سامنے کا بناوٹی رخ ٹریفک کے رش اور دھول سے اٹی ہوئی سڑک کی جانب کھلتا ہے اور عدالتیں خود بازار کی گہما گہمی کے پیچھے چھپ گئی ہیں۔ عدالتوں کے باہر وسیع احاطہ بھی اب بازار کا حصہ ہی معلوم ہوتا ہے جہاں ہر وقت ہاکر، پولیس، قیدی، قیدیوں کے خاندان، وکلاء، منشی، کتب فروش اور عدالتی ٹاؤٹ پاؤں پھیلائے پڑے رہتے ہیں اور ریڑھیوں کی بہتات ہے۔ اس منظر کو دیکھ کر عجیب و غریب احساس ہوتا ہے ۔گویا، طوفان بدتمیزی مچا ہے۔ ایسے میں کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک مقامی سماجی تنظیم سیلانی فاؤنڈیشن کے کارکنوں کا ایک ریلا آتا ہے۔ وہ نہایت سرعت کے ساتھ قیدیوں اور ان کے خاندانوں میں مفت کھانا تقسیم کرتے ہیں۔ یہ خیراتی عمل نہایت بھلا محسوس ہوتا ہے جو سیلانی فاؤنڈیشن نے قرانی احکامات کی روشنی میں جاری کر رکھا ہے اور یہ کراچی کے اس عدالتی احاطے میں پائی جانے والی بے پناہ سختیوں میں نرمی کا ایک گداز پہلو اجاگر کرتا ہے۔
اس رش اور بے پناہ ہجوم کے بیچ ایک منظر ایسا تھا جو دیکھنے میں عجیب اور بدیسی محسوس ہو رہا تھا۔ سبھی وکیل سیاہ کوٹ اور سفید شرٹیں پہنے، سیاہ ہی ٹائیاں باندھے سوٹ بوٹ میں ملبوس ہر جگہ پھیلے ہوئے تھے۔ اس دن کراچی میں درجہ حرارت قریباً پینتالیس ڈگری سینٹی گریڈ رہا ہو گا۔ ان وکیلوں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے سینکڑوں پینگوئین جہنم میں بند کر دیے گئے ہوں۔ خواتین وکلاء بھی سیاہ کوٹ اور سفید شلوار قمیص میں ملبوس تھیں لیکن سر پر سفید ہی رنگ کے دوپٹے بھی اوڑھ رکھے تھے۔ اسی دن، بار روم میں بیٹھے میں نے بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر سید منصور احمد سے وکلاء کے اس طرز عمل یعنی عدالت سے باہر بھی سیاہ کوٹ اور ٹائی لگائے پھرنے بارے استفسار کیا۔ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر نے مجھے انتہائی حیرت سے دیکھا اور فٹ بولا، 'یہ ہمارا یونیفارم ہے۔ ہم وکلاء کی شناخت اور نشان ہے۔' میں نے اپنی بہن کا حوالہ دیا جو لندن میں بیرسٹر ہے، اور توجہ دلانی چاہی کہ وہ کبھی بھی عدالت کے باہر وگ نہیں پہنتی اور اس گرمی تو وہ ہر گز نہ پہنے۔ اس پر جواب ملا،
'ہاں لیکن کراچی اور لندن میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ یہاں لوگوں کی بڑی تعداد وکیل بننا چاہتی ہے۔ ہمیں خود کو عام لوگوں سے ممتاز رکھنا پڑتا ہے۔ انہیں کسی نہ کسی طور تو دکھانا پڑتا ہے کہ ہم خصوصی ہیں۔ ہمارے سیاہ کوٹ دیکھ کر لوگ فوراً ہی سمجھ جاتے ہیں کہ ہم ایڈوکیٹ ہیں کیونکہ اس احاطے میں صرف وکلاء ہی سیاہ کوٹ پہن سکتے ہیں۔ ہمارے سینئیرز نے سکھایا ہے کہ بھلے جتنی بھی گرمی ہو، ہمیں یہ کوٹ پہن کر رکھنا ہے کیونکہ عام لوگ یہ کوٹ دیکھ کر ہی سمجھ جاتے ہیں کہ ہم ایڈوکیٹ ہیں۔ اسی کی بدولت عزت کریں گے۔'
بار روم کے باہر تقریباً ہر دیوار پر بار ایسوسی ایشن کی مختلف نشستوں کے لیے ہو رہے انتخابات کے سلسلے میں امیدواروں نے مہم کی غرض سے پوسٹروں کی بھرمار کر رکھی تھی۔ ایک پوسٹر پر تحریر تھا، 'ملک میں وکیل برادری کی عزت اور وقار بڑھانے کے لیے محمد عادل خان ایڈوکیٹ کو ووٹ دے کامیاب کروائیں۔آپ کا ووٹ، وکلاء کے حقوق کا ترجمان ہے۔'
اگر پاکستان کے ریاستی عدالتی نظام میں اشرافیہ کی حکمرانی اور غلبے کا عنصر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے تو وہیں یہ رجحان اس نظام میں تھوڑا ہی سہی لیکن بتدریج ترقی پسندی کا مظہر بھی ہے۔مثال کے طور پر پولیس کے ڈھانچے کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے جن میں فرق بھی واضح ہے۔ پہلا حصہ عام کانسٹیبل اور نان کمیشنڈ افسران پر مشتمل ہے، پھر جونئیر افسران ہیں اور آخری حصہ سینئیر 'گزیٹڈ' افسر ہیں۔ گزیٹڈ افسروں کا تناسب پولیس فورس میں آٹھ سو اہلکاروں کے مقابلے میں ایک ہے۔ یہ افسران باقاعدہ امتحان کے بعد بھرتی کیے جاتے ہیں اور ان کا شمار سینئیر سول سروس میں ہوتا ہے۔ پولیس میں بھرتی اور رینک کا نظام انگریز دور سے اخذ شدہ ہے ۔ برطانوی دور میں بھی انگریز سینئیر افسران اور ہندوستانی افسروں کے بیچ تفریق کی جاتی تھی اور ان دونوں حصوں کی رینک اور فائل میں کافی واضح فرق ہوا کرتا تھا۔ آج بھی پاکستانی محکمہ پولیس کے سینئیر افسران (اسسٹنٹ سپرنٹنڈٹ اور اوپر) بھی عام طور پر جرُمیات کی اعلیٰ ڈگری یعنی جرم کا سائنسی اور تحقیقی علم مغربی یونیورسٹیوں سے ہی حاصل کرتے ہیں۔
جہاں تک عدالتی نظام کا تعلق ہے، یہ انگریزی قانون عامہ پر مبنی ہے اور انگریزوں کا ہی متعارف کردہ ہے۔ تب سامراجی وجوہات کی بناء پر برطانوی سلسلہ شاہی نے انگریزی نظام کا ایک انتہائی اہم جمہوری جز، یعنی جیوری کا تصور ہندوستان میں متعارف کردہ عدالتی نظام سے منہا کر دیا تھا۔ پاکستان اور بھارت، دونوں ہی ممالک نے آزادی کے بعد بھی عدالتی نظام کو آج بھی آمرانہ انداز میں جیوری کے بغیر ہی چلا رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ مقامی اشرافیہ کی اکثریتی ان پڑھ عوام سے سخت بیر ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ان ممالک کی اسٹیبلشمنٹ کو ڈر ہے کہ مقدمات میں جیوری انتہائی ترش رخ یعنی طرح طرح سے جیسے برادریوں، فرقہ بندیوں اور لسانی بنیادوں پر بٹی رہے گی۔
غیر رسمی اور غیر تسلیم شدہ جرگوں اور پنچایتوں میں بہرحال جیوری کا تصور موجود ہے۔ اس طریق انصاف میں عوام کی نمائندگی موجود ہوتی ہے۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو عدالتی حساب کتاب کی رو سے جرگے اور پنچایتیں ہی جمہوری ادارے ہیں۔ لیکن ان جرگوں اور پنچایتوں اور ریاستی نظام انصاف کے ساتھ ایک مسئلہ اور بھی ہے جو پاکستان میں ترقی اور جمہوریت کے پروان چڑھنے کی راہ میں بھی حائل ہے۔ نظام انصاف پر مقامی اشرافیہ کے تسلط کو اگر الگ بھی رکھ دیا جائے تو بھی پاکستان کے عدالتی نظام، جرگوں اور پنچایتوں میں ملک کی صرف آدھی ہی آبادی کی نمائندگی موجود ہے۔ یعنی، ان رسمی اور غیر رسمی اداروں کی نمائندگی عام طور پر صرف اور صرف مردوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ریاستی عدالتی نظام میں کہیں نہ کہیں، تھوڑی بہت عورتوں کی نمائندگی موجود ہے لیکن وہ بہت ہی کم ہے۔ یہی نہیں بلکہ نمائندگی کی شرح بڑھنے کی رفتار بھی خاصی سست ہے۔ مثال کے طور پر کراچی کی ضلعی عدالتوں میں نو ہزار کے قریب وکلاء رجسٹرڈ ہیں جس میں صرف اور صرف پانچ سو، خواتین وکلاء ہیں۔ اسی طرح صرف کراچی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی عدلیہ میں خواتین ججوں کی تعداد گویا آٹے میں نمک، نہ ہونے کے برابر ہے۔
جہاں یہ، وہیں ملک کی وکلاء برادری میں ترقی پسند وکلاء جن میں کئی خواتین جیسے عاصمہ جہانگیر (ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی چئیروومن) جیسے شعلہ بیاں اور جری لوگ بھی پائے جاتے ہیں۔ ان وکلاء کی مہمیز سوچ اور چابک دستی کا نتیجہ ہے کہ ملک کا جھول کھاتا ہوا عدلیہ کا نظام بھی وقتاً فوقتاً عورتوں کے حقوق کے تحفظ پر مبنی فیصلے اور احکام امتناعی جاری کر دیتا ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا کہ ان ترقی پسند حلقوں کا زور اس قدر بڑھ کر ہوتا ہے کہ ریاستی عدالتیں جو عام طور پر دب جانے میں مقبول ہیں اور کئی انفرادی مقدمات میں انصاف فراہم کرنے میں یکسر ناکام رہی ہیں، ان معاملات میں اکثر کسی سیاسی اور غیر سیاسی دباؤ کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کرتیں۔ دوسری طرف غیر رسمی جرگوں اور پنچایتوں کا حال یہ ہے کہ اگرچہ ان پر جمہوری ہونے کا گماں گذرتا ہے لیکن بہرحال اس کے نمائندے (جو ہمیشہ مرد ہی ہوتے ہیں)، جدید طرز انصاف، جدید دور کے تقاضوں اور فیصلوں میں عورتوں کے حقوق پر جھاڑو پھیر دیتے ہیں اور کسی سیاسی یا غیر سیاسی حلقے کی ذرہ برابر پرواہ نہیں کرتے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ جرگوں اور پنچایتوں کو غیر قانونی جانتی ہے، انہیں ملک کے آئین اور دستور کے منافی قرار دیتی ہے اور ان کے فیصلے ریاستی نظام میں غیر تسلیم شدہ رہتے ہیں لیکن اس کے باوجود پولیس مقامی سطح پر مسائل کے حل اور مقدمات کو سرے لگانے کے لیے انہی جرگوں اور پنچایتوں پر انحصار کرتی ہے، تا کہ تنازعات کا حل نکلے اور امن و امان کی صورتحال خراب نہ ہو۔ یہ المیے کا وہ بیل ہے جس کے ان دو سینگوں پر پاکستان کے لبرل حلقے ہر وقت آر اور پار جھولتے رہتے ہیں لیکن خود اپنے آپ میں اس بارے بات کرنے اور اس کا ڈٹ کر سامنا کرنے کی جرات نہیں رکھتے۔ اسی وجہ سے پاکستان کے لبرل حلقے ہر دم سولی پر چڑھے رہتے ہیں اور ان کے ہاتھ پیروں میں یہ میخیں ٹھونکی رہتی ہیں کہ ان کی ترقی پسند سوچ جس میں جمہوری بالادستی کا تڑکہ بھی لگا ہے۔۔۔ اس کے باوجود تقریباً ہر لحاظ سے ملک کی جمہور یعنی پاکستانیوں (مردوں) کی اکثریت کو سرے سے منظور ہی نہیں ہے۔

سرورق: راولپنڈی: ضلعی عدالتوں میں ایک وکیل / ہیرالڈ / 2016ء

  اگلا باب: وکلاء تحریک 

اب تک شایع ہونے والے تمام حصے یہاں کلک کر کے ملاحظہ کریں

پاکستان میں پولیس اور عدالتی نظام کی کارکردگی جن مسائل سے متاثر رہتی ہے، اس کا احاطہ کرنا تقریباً ناممکن ہے ۔ لیکن، اگر ان مسائل کی وجہ کو ایک لفظ میں بیان کرنا پڑے تو وہ 'برادری' ہو گا۔ وسطی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس افسر نے اس نکتے کو کچھ یوں سمجھایا،
'کسی بھی کنبے اور خاندان کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ سختی سے جڑے ہوتے ہیں۔ چنانچہ، اگر آپ کسی ایک شخص کو گرفتار کر کے اس پر مقدمہ چلانا چاہیں تو غالباً آپ کو اس ایک شخص کی بجائے دس افراد کو گرفتار کرنا پڑے گا یا دھمکانا ہو گا۔ سب سے پہلے تو کسی بھی جرم میں مشتبہ اس شخص کو گرفتار کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد اسی کنبے کے تین افراد کو جھوٹی گواہی کے جرم، مزید تین کو پولیس اور ججوں کو رشوت دینے کے جرم اور تین وہ ہوں گے جو گواہوں کو دھمکائیں گے۔ انہیں بھی گرفتار کرنا پڑے گا۔ اگر یہ خاندان اثر و رسوخ کا حامل ہے تو پھر آپ بے شک کسی دوسرے دور دراز تھانے یا ضلع میں ٹرانسفر کے لیے ذہنی طور پر تیار رہیں۔ یوں، مجھ سے پوچھیں تو سب سے آسان حل یہی ہے کہ کسی کو گرفتار نہ کیا جائے۔
آپ ابتدائی تفتیشی رپورٹ یا 'ایف آئی آر' کی مثال لیں۔ فرض کریں، دو افراد یا برادریوں کے بیچ لڑائی جھگڑا ہو جاتا ہے اور قتل وغیرہ بھی ہو جائے ۔ اب یہ ہو گا کہ مقتول کے وارثین کسی ایک تھانے میں اس بہیمانہ زیادتی کے خلاف ایف آئی آر درج کروا دیں گے۔ مخالف فریق ، کسی دوسرے تھانے میں ایف آئی آر درج کروا دے گا کہ ، اصل میں توان پر حملہ ہوا تھا ۔ انہوں نے تو دفاع میں جارحیت سے کام لیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دونوں ہی درست کہتے ہوں؟ پولیس اور عدالتیں ان دونوں ہی رپورٹوں کے بیچ جھول کر ثبوت اور گواہی کی بنیاد پر حقیقت تلاش کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ ثبوت اور گواہی کا حال یہ ہے کہ ہر شے، ہر ہر شے جھوٹی ہوتی ہے ۔ یہ گواہیاں اور ثبوت کبھی ایک اور کبھی دوسرے کے حق میں جھولتے رہتے ہیں۔چنانچہ، مقدمہ چلتا ہی رہتا ہے یا پھر اس فریق کے حق میں فیصلہ آ جاتا ہے جو بڑھ کر اثر و رسوخ اور طاقت رکھتا ہے۔



اب فرض کریں، اگر کوئی مقدمہ ایسا ہو کہ جس میں کسی بھی طرح کا کوئی ابہام نہیں ہے اور آپ کو صاف پتہ ہو کہ اصل میں ہوا کیا تھا؟ یہاں بھی معاملات اتنے آسان نہیں ہوتے۔ آپ کو مجرم کو گرفتار کرنے کے لیے اس کے پورے خاندان اور مقامی سیاستدانوں کے ساتھ مذاکرات کرنے پڑتے ہیں۔ انہیں قائل کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے۔۔۔ اگر معاملہ گرفتاری تک پہنچ جائے تو پھر اس کے لیے کچھ نہ کچھ تو بدلے میں چھوڑنا ہی پڑتا ہے۔ تو، ایسے مقدمات میں اکثر یہ ہوتا ہے کہ مجرم کا خاندان اس کے بدلے میں کسی دوسرے مقدمے کا سہارا لیتا ہے جس میں انہیں مخالف فریق کے کسی آدمی کو جانے دیا جاتا ہے۔ یہ تو بہت ہی عام بات ہے۔ ہمارے یہاں اسے 'مک مکا' کہا جاتا ہے۔۔۔'
پولیس اور عدالتوں کے لیے مسائل کی ابتداء جھوٹ سے ہوتی ہے۔ حیران کن طور پر۔۔۔ یا کم از کم میرے لیے یہ امر حیرانگی کا باعث ہے کہ پاکستانی عدالتوں میں قران پر ہاتھ رکھ کر گواہی دینے کی اجازت نہیں ہے۔ اس سے مراد، زبانی قران کی قسم نہیں بلکہ قران کے اصل نسخے پر ہاتھ رکھ کر گواہی دینا ہے۔ میں نے سید منصور احمد، جو کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر ہیں۔۔۔ اس کی وجہ پوچھی تو شگفتگی کے ساتھ مسکرا کر بولے ، 'یہ نہایت سادہ بات ہے۔ لوگوں کی اکثریت قران پر ہاتھ رکھ کر قسم اٹھائے گی لیکن پھر بھی جھوٹ بولیں گے۔ اس امر سے مذہب کی بدنامی ہوتی ہے اور پاکستان میں مذہب کی بدنامی کی اجازت دینے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔۔۔'
انگریز دور میں بھی افسران اور شعبہ کے ماہرین نے اس مسئلے کی نشاندہی کی تھی اور پھر اسے نظام سے منسوب کر لیا۔ تاویل یہ دی گئی کہ اس خطے میں جدید عدالتوں کا موازنہ مقامی جرگوں اور پنچایتوں سے کیا جاتا ہے۔ جرگوں اور پنچایتوں میں تو ہر شخص دوسرے کو اچھی طرح جانتا ہے اور کسی بھی مقدمے کے بنیادی حقائق سے واقف ہوتا ہے اور جھوٹ بولنا کچھ معنی نہیں رکھتا۔ جنرل سر ولیم سلی مین کے الفاظ میں، جو کہ ٹھگی اور ٹھگ پیشوں کے طریقوں کے خلاف مہم سازی میں اہم کردار رکھتے ہیں۔۔۔ لکھتے ہیں،
'مجھے یقین ہے کہ ہندوستانی اپنے مقامی سماجی حلقوں میں اسی قدر جھوٹ بولتے ہیں جتنا کہ دنیا بھر میں کسی بھی علاقے، معاشرے اور آبادی میں اس کا تناسب ہوتا ہے۔ یہ تو صرف ہماری عدالتیں ہیں جہاں جھوٹی گواہیوں کی شرح بہت ہی زیادہ ہے۔ یہاں کسی بھی علاقے میں جو عدالت جتنی پرانی ہو گی، اس عدالت میں غلط بیانی کا تناسب بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا۔'
انگریز دور کے ایک افسر ڈینزل ایبسٹن تھے۔ یہ زبردست انتظام کار گزرے ہیں اور کارنامہ پنجاب کا نژاد نامہ اور نسلی نگاری ترتیب دینا ہے۔ وہ عام اور روزمرہ معاملات میں مقامی بلوچوں کی ایماندرای اور صاف گوئی کا تو دم بھرتے ہیں لیکن انگریزی عدالتوں میں بے انتہاء غلط بیانی اور تہہ در تہہ جھوٹ کا ذکر بھی کرتے ہیں۔
یہاں یاد رہے کہ زیادہ تر معاملات میں لوگ ریاستی عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی کوششوں اور جھوٹ کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی فعل ہی نہیں سمجھتے بلکہ وہ اسے اپنے خاندان، کنبے یا برادری کا ساتھ دینے اور اپنوں کو تحفظ دینے کی قدیم روایت کی پاسداری قرار دیتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھا جائے کہ اس ضمن میں اہم 'جاگیردار' سیاستدان اور کسی معمولی مزارعے یا مزدور میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سب ہی اپنی حیثیت اور وسائل کے مطابق جہاں تک ممکن ہو پولیس اور عدالت کو دھوکہ دینے، بگاڑنے اور دباؤ ڈالنے میں اپنے رشتہ داروں، قرابت داروں اور اتحادیوں کی مدد کرتے ہیں۔ دباؤ سے مراد طبعی ، جسمانی اور زیادہ تر سیاسی اثر و رسوخ ہوتا ہے۔
یہ صرف نچلی سطح کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ بات بہت اوپر تک جاتی ہے۔ 2009ء کی بات ہے۔ میں پاکستان کے ایک صوبے کے محکمہ پولیس کے انسپکٹر جنرل کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ اسی اثناء میں صوبہ کے وزیراعلیٰ کا فون آ گیا۔ وہ صاحب پولیس انسپکٹر جنرل پر اتنی زور و شور سے دھاڑ رہے تھے کہ میں کئی فٹ دور بیٹھ کر بھی فون کے ریسیور میں شور سن سکتا تھا۔ وزیراعلیٰ صاحب کسی سپرنٹنڈنٹ پولیس کی شکایت لگا رہے تھے، جس نے ان کی جماعت کے ایک اہم رہنماء کی کوٹھی سے کسی ڈاکو کو گرفتار کر لیا تھا۔
انسپکٹر جنرل پولیس کافی دیر تک نہایت بیچارگی کے ساتھ وزیراعلیٰ کو اس ضمن میں تفصیلی انکوائری، ڈاکو کی فی الفور رہائی اور گستاخ پولیس افسر کی دوسرے ضلع میں تبادلے کی یقین دہانی کرواتے رہے۔ یاد رہے، اس صوبے کا وزیراعلیٰ عام طور پر ملک میں اپنی اہلیت، پھرتی، محنت کشی اور قدرے ایمانداری کے لیے مشہور ہے۔ پنجاب کے ایک اعلیٰ پولیس افسر نے مجھے بتایا تھا کہ صوبے کے 648 تھانوں میں آدھے تھانیدار مقامی سیاستدانوں کی مرضی سے، صوبائی حکومت پر دباؤ ڈال کر تعینات کروائے گئے ہیں۔ یہ تھانیدار اپنے تھانوں کی حدود میں ان سیاستدانوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔
مزید براں یہ کہ عدالتی نظام نہ صرف یہ کہ سیاسی طور پر تعاملی واقع ہوا ہے بلکہ یہ ایک ہتھیار کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ لوگ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ایک بہت بڑی تعداد میں جھوٹے مقدمات درج کرواتی ہے اور حکومتی جماعت اس ضمن میں چار قدم آگے نکل کر مخالفین کو ریاستی وسائل کے بل بوتے پر عدالتوں میں بھی گھسیٹتی ہے۔ انہی جھوٹے مقدمات کو ملک کے انٹیلی جینس ادارے، بالخصوص آئی ایس آئی اکثر ہی انتخابات پر اثرانداز ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ ادارے، انہی مقدمات کے ذریعے پارلیمانی امیدواروں کو انتخابات سے علیحدگی یا سیاسی جماعتوں سے وفاداریاں بدلنے پر مجبور کرتے ہیں۔
یہ ایسی صورتحال ہے جس میں ہر دم دروغ گوئی، ناراستی اور سیاسی دباؤ سے کام لیا جاتا ہے۔ اب دنیا کی چاہے سب سے بہترین، فاواں ساز و سامان سے لیس، بہترین تنخواہوں کی حامل اور انتہائی منظم پولیس بھی ایسے دباؤ کا شکار ہو جائے گی کہ اس کے لیے اصل کام یعنی کار سرکار سر انجام دینا ناممکن ہو گا۔ پاکستانی (اور بھارتی!) پولیس تنظیم اور استعداد میں بہت ہی پیچھے ہے اور سخت دباؤ کا شکار ہے۔
اگست 2008ء میں، جب میں پشاور میں تھا تو ایک عام پولیس اہلکار کو درپیش مسائل اور سخت ماحول کا ادراک ہوا۔ پشاور کے مضافات میں ایک تھانے میں جانا ہوا۔ اس تھانے کی حدود میں صرف 2008ء میں 18 قتل رپورٹ ہو چکے تھے۔ میں نے اس تھانے میں تفتیشی سیکشن کے سربراہ، ایک سب انسپکٹر سے بات چیت کی۔ ہم نے تھانے میں اس کے دفتر کی بجائے اس کمرے میں بیٹھ کر بات کی جہاں تھانے کے سبھی اہلکار دوران ڈیوٹی کھاتے اور سویا کرتے تھے۔ یہ جگہ کسی انتہائی خستہ حال، کسی کچی آبادی کا منظر پیش کر رہی تھی۔ دیواریں کھرچی ہوئی تھیں اور چھت سے پانی ٹپک رہا تھا۔ جس وقت میں وہاں موجود تھا، بجلی بھی نہیں تھی اور سخت گرمی میں ظاہر ہے، عام پولیس اہلکاروں کو جینریٹر کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ مون سون کے اس موسم میں صرف یہ کمرہ ہی نہیں بلکہ پورا تھانہ پسینے اور سڑانڈ کی حبس سے بھرا کنواں بنا ہوا تھا ۔ پولیس اہلکاروں کی وردیاں چاروں دیواروں پر کھونٹیوں پر ٹنگی ہوئی تھیں اور ایک کونے میں شیو کا سامان اور آئینہ بھی رکھا ہوا تھا۔ اس تھانے میں چند میزوں، کرسیوں، دو الماریوں اور تین چارپائیوں کے سوا مزید کوئی فرنیچر نہیں تھا۔
سب انسپکٹر پکی عمر ، بھاری بھرکم جسامت اور دیکھنے میں سخت جان نظر آتا تھا۔ اس کے ہاتھ اتنے بڑے تھے کہ مکا بناتا تو دیکھ کر خوف آتا کہ جو ان ہاتھوں سے تفتیش کے دوران پٹتا ہو گا، اس کا کیا حال ہوتا ہو گا؟ میں نے اس سے پوچھا کہ صوبہ سرحد میں پولیس کی سب سے بڑی ضرورت کیا ہے؟ اس سوال پر وہ نہایت تلخی سے ہنسا اور بولا،
'کہاں سے شروع کیا جائے؟ سب سے پہلے تو تنخواہیں اور معاشی تحفظ ضروری ہے۔ موٹروے پولیس کو دیکھ لیں، سب یہی کہتے ہیں کہ موٹروے پولیس نہایت ایماندار اور محنت کش ہے۔ وہ کیوں نہ ہو؟ انہیں ہم سے دگنی تنخواہ اور مراعات ملتی ہیں۔ ہمیں اچھی رہائش اور کام کرنے کے موزوں جگہ بھی درکار ہے۔ اس تھانے کا حال دیکھ لیں۔ ہمیں تیز رفتار گاڑیوں، موثر ریڈیو سسٹم، ہتھیاروں اور بلٹ پروف جیکٹوں کی بھی اشد ضرورت ہے۔ آپ ہی بتائیں، کیا دنیا میں کہیں بھی پولیس کا ادارہ ان سب سہولیات کے بغیر موثر کام کر سکتا ہے؟ جو تنخواہ ہمیں ملتی ہے، پکیا آپ اس تنخواہ میں طالبان کے خلاف لڑائی میں اپنی جان گنوانے کا سوچ سکتے ہیں؟'
سب انسپکٹر نے مزید بتایا کہ اس وقت صوبہ سرحد میں صرف ایک فنگر پرنٹ مشین ہے۔ اس بارے افسران نے بھی بعد میں نہایت صاف گوئی سے تصدیق کی کہ یہ مشین بے کار ہے کیونکہ اول تو صوبے میں انگلیوں کے نشانات کے ذخیرہ کو وثق کی صورت جمع کرنے کی سہولت ہی نہیں ہے۔ دوم، پولیس کو اس مشین کے استعمال کرنے کا طریقہ آتا ہے اور نہ ہی آج تک کسی نے سنجیدگی سے پولیس کو فنگر پرنٹ حاصل کرنے کی ٹریننگ دی ہے۔ یہ امر پنجاب کے ایک بڑے حصے اور اندرون سندھ کی پولیس کے بارے بھی یوں ہی ہے۔ یہی نہیں، بلکہ پاکستانی پولیس کو کسی بھی وقوعہ پر شہادتوں کو محفوظ کرنے کی بنیادی ٹریننگ بھی حاصل نہیں ہے اور یہ امر صرف دیہی یا دور دراز علاقوں کے لیے مخصوص نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ملک کے دارالحکومت اور وزارت داخلہ کی سپیشل سروسز، انٹیلی جینس بیورو بھی اس شعبے میں کوری ہے۔ پولیس کی وگرگوں تفتیشی صلاحیت سے متعلق یہ حالت بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد کھل کر سامنے آ گئی جو نہایت شرمناک تھی اور پوری دنیا میں جگ ہنسائی کا باعث بنی۔ وقوعہ پر تمام ثبوت اور شہادتیں دو گھنٹے کے اندر دھو دی گئی تھیں اور بعد میں اسی سبب بیسیوں سازشی نظریے گھڑ لیے گئے تھے جو آج تک ختم ہونے میں نہیں آ رہے۔
مناسب ٹریننگ اور موزوں ساز و سامان کی قلت تو ایک طرف، اس ملک میں پولیس کی نفری کی بھی سخت کمی ہے۔ پاکستان میں ہر جگہ۔۔۔ سرکاری املاک، حکام اور سیاستدانوں کی حفاظت پر مامور پولیس کی تعداد کو دیکھ کر تو یہی لگتا ہے کہ شاید پولیس کی نفری اور طاقت بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح، اگر بڑے شہروں میں ضرورت پڑے تو مضافاتی علاقوں سے بھی پولیس کی بھاری نفری فوراً ہی طلب کی جا سکتی ہے لیکن دیہی علاقوں اور بالخصوص پنجاب کے دیہہ میں عام طور پر اوسطاً پچاس گاؤں کے لیے ایک تھانہ ہے۔ بھارت میں تو یہ اوسط اس سے بھی بدتر ہے۔ پاکستان بھر میں جن پولیس اہلکاروں کے ساتھ آج تک بات چیت کا موقع ملا ہے، ان میں شاذ و نادر ہی کسی کو علاقے میں آبادی سے متعلق درست معلومات تھیں بلکہ انہیں تو پچھلے ایک برس میں اپنے علاقے میں پیش آنے والے جرائم کی تعداد اور دوسرے اہم واقعات بارے بھی پوری طرح علم نہیں تھا۔
نتیجہ یہ ہے کہ مراعات نہ ملنے کے ساتھ ساتھ روایتی سستی اور ملک میں گرم موسم کی سختی کی وجہ سے پولیس زیادہ تر ردعمل دکھانے میں ہی مصروف رہتی ہے۔ آپ پاکستان میں آگ بجھانے والی گاڑیوں اور ایمبولینسوں کی طرح کبھی بھی پولیس کی گاڑیوں کو تیزی سے کسی سمت جاتے ہوئے نہیں دیکھیں گے۔کسی سیاستدان، جج یا سینئیر افسر کے قافلے میں پولیس گاڑیاں دوڑانا یا کسی وقوعہ کی جانب کسی بڑے افسر کا بذات خود سرعت سے جانا علیحدہ بات ہے۔ عام طور پر، پولیس اہلکار تھانے میں ہی بیٹھے مقدمات کے درج ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور قتل کے معاملات میں تو اکثر و بیشتر ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ وارثین کو مقتول کی لاش اٹھا کر چوک میں احتجاج کرنا پڑا اور اکثر تھانے بھی لے جانی پڑی تا کہ پولیس کو اطلاع ہو سکے۔ اس طرح ظاہر ہے کہ اگر پولیس کو بہترین ٹریننگ حاصل بھی ہو تو وقوعہ اور جرم سے متعلق دوسری تفصیلات کی فورینزک اہمیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔چونکہ پاکستانی آبادی کی اکثریت ان پڑھ ہے، پولیس اہلکار جو چاہیں اپنی مرضی سے ایف آئی آر میں کسی بھی جرم کی تفصیلات درج کر سکتے ہیں اور گواہوں سے اس کی تصدیق بھی کروا سکتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر پولیس کو پیسہ یا کوئی دوسرا مالی فائدہ نظر آئے تو وہ سرے سے مقدمہ درج ہی نہیں کرتے۔
پاکستانی پولیس کے تفتیشی طریقہ کار میں ایک اہم اور خاصی متنازع تکنیک تشدد کا استعمال ہے۔ عام طور پر کسی بھی مقدمے میں ملزم، اس کے رشتہ داروں اور گواہوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس بارے پولیس اہلکار، بشمول سینئیر افسران بھی خاصے صاف گو واقع ہوئے ہیں اور اس بارے تنقید کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ پنجاب پولیس کے ایک سینئیر افسر نے بتایا:
'میں صوبے میں فنگر پرنٹنگ، فورینزک جانچ پڑتال اور دوسری جدید تکنیکوں کو متعارف کروانا چاہتا ہوں لیکن پولیس کے محکمے میں ابھی تک پرانا کلچر ہے۔ تھانیدار اور نچلی رینک کے پولیس اہلکار اس بارے خاصے قنوطی واقع ہوئے ہیں۔ وہ ایسی کسی بھی کوشش سے متعلق یہی کہیں گے، 'ارے، رہنے دو۔۔۔ یہ ضرورت سے زیادہ پڑھے لکھے افسروں کے چونچلے ہیں اور کچھ نہیں ہے۔ میں تو اسی طریقہ کار پر عمل کروں گا جو خاصا موثر ہے۔ ملزم کو چٹائی پر لٹاؤ اور چھترول کرو۔۔۔ ساری بات خود بخود ہی باہر نکل آئے گی۔'
پشاور میں جس تفتیشی افسر سے میری بات ہوئی تھی، اس نے کار چوری کی ایک واردات کا حوالہ دیا تھا جس میں ملزم فرار ہو کر گاڑی سمیت مہمند ایجنسی نکل گیا تھا:
'ابتدائی اطلاع درج ہوئی تو ہم نے اس کے باپ کو گرفتار کر لیا اور اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی تا کہ گاڑی واگزار کروائی جا سکے۔ اگر اس کا باپ جوان آدمی ہوتا تو ہم اس کی خبر لیتے۔ وہ خود بخود ہی اپنے بیٹے کا اتا پتہ بتا دیتا لیکن چونکہ وہ بوڑھا آدمی تھا۔۔۔ اس لیے ہم نے اس پر تشدد نہیں کیا۔ ہم نے تو اسے عام طریقوں اور حیلوں سے ڈرایا دھمکایا۔ اس کے خاندان میں دوسرے افراد پر درج مقدمات کے حوالے سے دباؤ ڈالا۔۔۔ بات یہ ہے کہ اس معاشرے میں ہر شخص ہی کوئی نہ کوئی جرم کر چکا ہے۔ ہم نے اسے کہا کہ اگر وہ ہمارے ساتھ تعاون نہ کرے گا تو ہم مہمند ایجنسی کے پولیٹکل ایجنٹ سے کہلوا کر ایجنسی میں اس کے رشتہ داروں کے سارے گھر مسمار کروا دیں گے۔ یہ دباؤ کارگر ثابت ہوا اور آخر کار گاڑی برآمد کروا لی گئی۔'
پولیس کے اس طرح کے حربے اور ہر چھوٹے سے بڑے کام اور سروس کے لیے رشوت خوری کی انتہا کا نتیجہ ہے کہ عوام کی اکثریت پولیس سے جہاں تک ممکن ہو، کتراتی ہے اور مقدمات کے حل کے لیے دوسرے غیر رسمی اور زیادہ تر غیر تسلیم شدہ اور غیر قانونی طریے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس سوال پر کہ آیا پولیس کی کارکردگی پر ملک یا صوبے میں فوجی یا سویلین حکومت سے کوئی فرق پڑتا ہے؟ اس تفتیشی افسر نے صاف صاف قطعی طور پر جواب حصوں اور ٹکڑوں میں دیا۔ میں جب پشاور میں اس افسر کے تھانے میں گیا تھا، اس سے دو دن قبل ہی مشرف نے بطور صدر استعفیٰ دے دیا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا مشرف کے جانے کے بعد چونکہ اب ملک میں 'جمہوریت' آ چکی ہے، تشدد کے طریقوں کے استعمال میں کوئی تبدیلی آئے گی؟ اس پر اس افسر کا ردعمل ایسا تھا جیسے میں نے کوئی انوکھی بات کہہ دی ہو۔ اس کی حیرانگی اور چہرے کے تاثرات دیکھنے لائق تھے۔ دراصل، میں نے نہ صرف ایک بے معنی سوال پوچھا تھا بلکہ اس کے نزدیک اس سوال اور اس سوال میں اصل بات کا زمینی حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔
بہرحال، یہ صورتحال کسی بھی طرح ہمیشہ اس طرح نہیں رہتی یا کہیے یہ پتھر پر لکیر نہیں ہے۔ پولیس کے محکمے میں کئی بالا اور انتہائی ذہین افسران بھی پائے جاتے ہیں جو ہر دم اہلکاروں کی کارکردگی اور حالات کو بہتر بنانے میں کوشاں رہتے ہیں۔پشاور میں، اس سب انسپکٹر نے بھی موٹروے پولیس کی مثال دی تھی۔ یہ پاکستانی پولیس میں ایک بہترین مثال ہے اور اس سویلین فورس کو دیکھ کر امید پیدا ہوتی ہے کہ اگر ماحول اور مواقع پیدا کیے جائیں تو پاکستانی پولیس بھی انتہائی کارگر اور فرض شناس ہو سکتی ہے۔ موٹروے پولیس کے اہلکاروں کو ملنے والی خاطر خواہ تنخواہوں کے سبب انہیں رشوت خوری کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی اور چونکہ انہیں افسرانہ احکامات اسلام آباد سے موصول ہوتے ہیں، اس لیے انہیں کسی مقامی سیاسی اور غیر سیاسی اثر و رسوخ اور دباؤ کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ جہاں یہ، وہیں غالباً یہ بھی انتہائی اہم ہے کہ موٹروے پولیس کو کام کرنے کے لیے اچھی سہولیات، خاطر خواہ مراعات اور جدید موٹر وے جیسا ماحول میسر ہے جہاں جا بجا ان کی سہولت کے لیے چوکیاں اور کیفے بھی قائم ہیں اور جدید ٹیکنالوجی بھی دستیاب ہے۔ اس سے ان اہلکاروں کو اس محکمے کا حصہ بننے پر اور قوم کو خدمات فراہم کرنے پر فخر بھی محسوس ہوتا ہے۔ یہی فخر، ان کے لیے سرمایہ ہے اور عوام میں مقبولیت اور فرض شناسی کا باعث بھی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ موٹر وے پولیس فرض شناس اور ایماندار واقع ہوئی ہے۔ ہم ایک دن اسلام آباد سے لاہور کی جانب سفر کر رہے تھے ۔ موٹر وے پولیس نے قانون توڑنے پر ہماری گاڑی کو نہایت اطمینان سے روک کر، ڈرائیور کو نپے تلے پیشہ ورانہ انداز میں بغیر کسی حیل و حجت چالان کا ٹکٹ تھما دیا۔ ان پولیس اہلکاروں کی جسمانی حرکات و سکنات اور ظاہری ٹھاٹھ باٹھ سے ایک لمحے کے لیے بھی محسوس نہیں ہوا کہ وہ رشوت کے عوض ڈرائیور کو چالان سے منہا کر سکتے ہیں۔ میں نے اس ملک میں اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے بے شمار افراد کو حیرانگی اور غم و غصے کی حالت میں گلہ کرتے دیکھا ہے جو موٹر وے پر پولیس کے منصفانہ اور پیشہ ورانہ سلوک پر نالاں نظر آتے تھے۔ وہ پاکستان میں کسی پولیس اہلکار کے اشرافیہ کے ساتھ اس طرح کے رویے کے بارے سوچ بھی نہیں سکتے۔ جہاں موٹر وے پولیس کی یہ مثالی کارکردگی ہے وہیں یہ بھی صاف ہے کہ پاکستان میں جدید موٹر ویز اور موٹر وے پولیس جیسے ادارے بھی گویا کسی انوکھی دنیا سے وارد ہونے والی جگہ اور لوگ محسوس ہوتے ہیں۔ ایسے ،جیسے یہ اس ملک سے تعلق نہیں رکھتے۔ یہ اس دیس کے نہیں ہیں اور ان کا اس خطے سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ آپ موٹروے سے اترے نہیں اور فرق واضح محسوس ہو جاتا ہے۔ یکدم ہی احساس ہوتا ہے کہ جیسے ہم کچھ دیر کسی سنہرے خواب میں بسر کر کے حقیقی دنیا میں دوبارہ لوٹ آئے ہیں۔ جہاں یہ، وہیں قدرتی طور پر یہ خیال بھی آتا ہے کہ اس خواب کی تعبیر ناممکن نہیں ہے۔ اگرپاکستان میں موٹر وے پولیس جیسا ادارہ قائم ہو کر پیشہ ورانہ انداز میں چل سکتا ہے تو کوئی وجہ نہیں، پورے ملک میں پولیس کا باقی محکمہ بھی انہی خطوط پر استوار کیا جا سکتا ہے۔

سرورق: لاہور: چیک پوسٹ پر مامور ایک پولیس اہلکار /پاکستان ٹو ڈے/ 2012ء

  اگلا باب: عدالتیں 

اب تک شایع ہونے والے تمام حصے یہاں کلک کر کے ملاحظہ کریں
سبسکرائب کریں در: اشاعتیں ( Atom )

صفحات

  • ہوم
  • آدمی: بنی نوع انسان کی مختصر تاریخ
  • کارواں - افغانستان کا ناول
  • ماخوذ کہانیاں
  • اول المسلمین: محمد صلعم کی کہانی
  • اول المسلمین کے بعد: شیعہ اور سنی کی داستان
  • بلاگ سیریز: نئی پرانی کہانی
  • پاکستان: ایک سخت جان دیس

مشہور اشاعتیں

  • اول المسلمین کے بعد - محمدؐ - 02
  • اول المسلمین کے بعد - علی - 06
  • اول المسلمین کے بعد - محمدؐ - 1
  • اول المسلمین کے بعد - محمدؐ - 05
  • اول المسلمین کے بعد - محمدؐ - 04

زمرے

افسانہ آپ بیتی برقی کتب تبصرہ تراجم جنوبی پنجاب میں خاکہ رپورتاژ سیاست کہانی ماخوذ متفرق مختصر مذہب معاشرہ ناول نثر نئی پرانی کہانی

رابطہ کیجیے

نام

ای میل *

پیغام *

جملہ حقوق محفوظ ہیں | صلہ عمر.
تیار کنندہ OddThemes